سورة الاعراف - آیت 29

قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہئے کہ میرے رب نے تو انصاف (18) (یعنی توحید) کا حکم دیا ہے، اور کہا ہے کہ تم لوگ ہر نماز کے وقت اپنے چہرے قبلہ کی طرف کرلو، اور عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرتے رہو اسی کو پکارو، جیسا کہ اس نے تمہیں پہلی بار پیدا (19) کیا تھا (مرنے کے بعد) دوبارہ اسی حال میں لوٹا دئیے جاؤ گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بِالْقِسْطِ: لہٰذا تم اس کی پیروی کرو۔ یہاں ’’اَلْقِسْطُ‘‘ (انصاف) سے مراد توحید ہے، پھر بے حیائی اور بدکاری سے بچنا ہے، کیونکہ سب سے بڑا ظلم اﷲ کے ساتھ شرک ہے، فرمایا : ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ [ لقمان : ۱۳ ] ’’بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ پھر کسی انسان کی جان، مال یا آبرو برباد کرنا بڑا ظلم ہے اور سب سے بڑا انصاف اﷲ تعالیٰ کی توحید کی شہادت ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے : ﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ﴾ [ آل عمران : ۱۸ ] ’’اﷲ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔‘‘ وَ اَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ : ’’مَسْجِدٍ ‘‘ سے مصدر میمی، ظرف زمان اور ظرف مکان تینوں مراد ہو سکتے ہیں۔ مصدر میمی ہو تو اس کا معنی سجدہ بھی ہے اور نماز بھی، جیسے ’’رَكْعَةٌ ‘‘ کا معنی رکوع بھی ہے اور نماز میں قیام، رکوع، قومہ، سجدہ اور قراء ت وغیرہ کے مجموعہ کو بھی ’’رَكْعَةٌ ‘‘ کہا جاتا ہے اور سجدہ بھی اور قیام بھی۔ یعنی جز بول کر کُل مراد لیا جاتا ہے، تو معنی ہو گا ہر نماز میں۔ اگر مراد زمان ہو تو ہر سجدے یا نماز کے وقت اور مکان ہو تو ہر سجدے یا نماز کی جگہ اپنے رخ سیدھے کر لو، یعنی قبلہ کی طرف، یا جیسے اﷲ کے رسول نے حکم دیا ہے اس طرح اپنے چہروں، یعنی اپنے آپ کو سیدھا کر لو اور ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نماز پڑھو۔ وَ ادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ: ’’الدِّيْنَ ‘‘ کا معنی یہاں عبادت ہے، یعنی خالصتاً اس کی عبادت کرو اور اس کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو، مراد ریا سے بچنا ہے۔ الغرض اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ جو عبادت شرک یا ممنوع چیزوں، مثلاً ننگے ہونے یا ریا وغیرہ پر مشتمل ہو وہ فواحش میں داخل ہے۔ (رازی) خلاصہ یہ کہ ہر عبادت کے لیے توحید، اتباع رسول اور اخلاص (ریا سے پاک ہونا) تینوں چیزیں ضروری ہیں، ورنہ وہ مردود ہو گی۔ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ: یعنی جس طرح تم پہلے کچھ نہ تھے، اﷲ نے کسی مشکل کے بغیر تمھیں پیدا فرمایا، اسی طرح تمھارے مر جانے کے بعد وہ تمھیں دوبارہ نہایت آسانی سے زندہ کر دے گا اور جس طرح تم پیدا ہوئے تو تمھارے پاس کچھ نہ تھا اور بغیر ختنے اور لباس کے تھے، ایسے ہی دوبارہ زندہ ہوتے وقت ہو گے۔