بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
بڑی ہی بری وہ چیز (١٤٣) تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، یعنی الہ کی نازل کردہ (کتاب) کا انکار کردیا، سرکشی اور حسد کی وجہ سے کہ اللہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (کیوں) اتارتا ہے۔ پس وہ (اللہ کے) غضب پر غضب کے مستحق بنے، اور کافروں کو بڑا رسوا کن عذاب ملے گا
یعنی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لینے کے باوجود کہ یہ وہی نجات دلانے والا ہے جس کے آنے کی وہ دعائیں کرتے تھے، آپ کا انکار کیا، تو اس کی وجہ صرف ان کی یہ ضد، نسلی تعصب اور حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی ان میں کیوں نہیں بھیجا اور اپنے فضل سے ایک ان پڑھ قوم عرب کو کیوں نوازا۔ یہ نہ سوچا کہ اللہ اپنے فضل کا خود مالک ہے، وہ جسے چاہے نواز دے۔ ان کے اس حسد کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غضب پر غضب لے کر پلٹے۔ پہلے جرائم، جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہے، ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث تھا، مثلاً بچھڑے کی عبادت، تورات میں تحریف، رسولوں کا قتل، عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب وغیرہ، اب آخر الزماں نبی کو جھٹلایا تو مزید غضب کا نشانہ بنے، چنانچہ ”بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ“ کا معنی ”پہلا اور دوسرا غضب“ نہیں ، بلکہ بار بار اور بڑا غضب ہے، جس کی وجہ سے انھیں ”الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ فرمایا گیا ہے۔