قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ
اس نے کہا، چونکہ تو نے مجھے گمراہ کردیا، اس لیے میری تیری سیدھی راہ پر ان کے گھات میں بیٹھا رہوں گا
1۔ قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَيْتَنِيْ: ابلیس کی شیطنت دیکھیے کہ گمراہ ہونے میں سارا قصور اﷲ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا ہے اور اپنے اختیار کی نفی کر رہا ہے، یہی جبریہ کا عقیدہ ہے اور مشرکین نے بھی اﷲ تعالیٰ کے ذمے یہی الزام لگایا کہ اگر وہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ [ دیکھیے الأنعام : ۱۴۸ ] 2۔ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ: یعنی میں تو گمراہ ہوں ہی ان کی بھی راہ ماروں گا۔ (موضح) یہاں شیطان جبری کے بجائے قدری بن گیا کہ میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا، پہلے کہتا تھا کہ سب تو نے ہی کیا۔ معلوم ہوا شیطان میں جبری اور قدری ( تقدیر کا منکر) ہونے کی دونوں گمراہیاں موجود ہیں، جبکہ ایمان ان دونوں کے درمیان ہے۔