قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
آپ کہئے کہ میری (161) نماز اور میری قربانی، اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ ....: ’’اَلنُّسُكُ ‘‘ کا معنی عبادت ہے، یہ ذبح، قربانی اور حج کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ﴾ [ الحج : ۳۴ ] ’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اﷲ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔‘‘ اور ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی : ﴿وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا ﴾ [ البقرۃ : ۱۲۸] ’’ اور ہمیں ہماری عبادت (یا حج) کے طریقے دکھا۔‘‘ ’’اَلصَّلاَةُ ‘‘ قلبی، زبانی اور جسم کے تمام اعضاء کی عبادت کا مجموعہ ہے۔ ’’مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ ‘‘ مصدر بھی ہو سکتے ہیں اور ظرف زمان بھی، یعنی مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی قلبی، زبانی اور جسمانی عبادات، مثلاً قیام، رکوع اور سجود، یہ سب غیر اﷲ کے لیے تھیں، اسی طرح ان کی قربانیاں اور زندگی اور موت کا وقت سب انھی کی نذر تھا، ہاں کبھی اﷲ تعالیٰ کو بھی شامل کر لیتے تھے۔ فرمایا، ان سے صاف کہہ دیجیے کہ میرا تو یہ سب کچھ ایک اﷲ کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے یہی حکم ہے اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو ایک اﷲ تعالیٰ کے سپرد کرنے والا اور اس کا فرماں بردار بنانے والا ہوں، میرا جینا اور مرنا بھی اس اکیلے کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے ساتھ شرک کو ختم کرنے کے لیے ہے، حتیٰ کہ اسی پر میری موت آ جائے۔