أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَىٰ مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاءَكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۗ سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ
یا تم یہ نہ کہو کہ اگر ہمارے اوپر بھی کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے، تو اب تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی دلیل اور رحمت آگئی، تو اب اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے گا، اور اس سے اعراض کرے گا، ہم عنقریب ایسے لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے اعراض کرتے ہیں، ان کے اعراض کے نتیجہ میں بدترین عذاب دیں گے
1۔ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّاۤ اُنْزِلَ....:یعنی یہ عذر بھی نہ کر سکو۔ ’’بَيِّنَةٌ ‘‘ روشن دلیل سے مراد قرآن مجید ہے، جو صرف ہدایت اور رحمت ہی نہیں بلکہ اپنے سچے ہونے کی واضح اور روشن دلیل بھی ہے اور جو صرف عربوں کے لیے ہی نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام لوگوں اور تمام اقوام کے لیے ہے اور وہ کسی سے عربی پڑھ کر اﷲ کے احکام معلوم کر سکتے ہیں، جیسا کہ اﷲ کے فضل سے تمام اقوام میں اسلام پھیل چکا ہے۔ 2۔ صَدَفَ عَنْهَا: اس کے معنی کنارہ کرنے کے بھی ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے تھے اور دوسروں کو بھی روکتے تھے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۶، ۲۷)۔