قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آپ کہہ دیجئے کہ جو کتاب مجھے بذریعہ وحی دی گئی ہے اس میں کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز حرام (145) نہیں پاتا ہوں، سوائے اس کے کہ کوئی مردار جانور ہو، یا بہنے والا خون، یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا ایسا جانور جو غیر اللہ کے نام پر چھوڑا گیا ہو، ہاں، جو شخص بے حد مجبوری کی حالت میں کوئی حرام چیز استعمال کرلے گا، نہ نافرمان ہوگا اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا، تو بے شک آپ کا رب بڑا معاف کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے
1۔ قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِيْ مَاۤ اُوْحِيَ ....: مردہ سے مراد ہر وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا حادثے سے ( جس کی تفصیل مائدہ کی آیت ۳ میں ہے) مر جائے یا شرعی طریقے کے خلاف ذبح کیا گیا ہو، مثلاً جان بوجھ کر تیز دھار آلے کی ایک ہی ضرب سے گردن جدا کر دی جائے، یا سخت گرم پانی میں ڈبو کر مار دیا جائے، یا کرنٹ وغیرہ کے ذریعے سے غرض شرعی ذبیحہ یا شکار کے علاوہ سب مردار ہیں اور حرام ہیں۔ خون جو بہایا جائے، زندہ کا یا ذبیحہ کا، حرام ہے، البتہ جسم کے ساتھ لگا رہ جانے والا خون یا کلیجی اور تلی بہایا ہوا خون نہ ہونے کی وجہ سے حلال ہیں۔ خنزیر کا گوشت کہ وہ گندگی ہے، یعنی صحت کے لحاظ سے بے شمار بیماریوں کا باعث ہونے اور بے غیرتی میں بد ترین جانور ہونے کی وجہ سے کھانے والوں میں اس کی تاثیر کی بنا پر معنوی طور پر سراسر گندگی ہے۔ ’’ اَوْ فِسْقًا ‘‘ اس کا عطف ’’لَحْمَ خِنْزِيْرٍ ‘‘ پر ہے، یعنی یہ بھی اسی طرح حرام ہے۔ ’’فِسْقًا ‘‘ کا معنی اﷲ کی فرماں برداری سے نکل جانا ہے۔ اﷲ کا حکم ہے کہ جانور اﷲ کے نام پر ذبح کیا جائے، اس لیے وہ جانور جس پر ذبح کرتے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا جائے، حرام ہے۔ ’’اُهِلَّ ‘‘ کا معنی آواز بلند کرنا ہے، کسی جانور پر اگر کسی غیر اﷲ کانام مشہور کر دیا جائے کہ یہ داتا کا بکرا ہے، یا بری امام کی گائے ہے، یا فلاں پیر یا امام کی نذر و نیاز ہے، اس سے مقصود چونکہ غیر اﷲ کو راضی کرنا ہے کہ وہ راضی ہو کر ہمارے کام سنوار دیں گے، اس لیے ایسے جانور کو ان کی رضا کے لیے ذبح کرتے وقت اس پر ’’ بسم اﷲ ‘‘ بھی پڑھی جائے تو بھی حرام ہے، کیونکہ اعتبار نیت کا ہے اور نیت کا اظہار خود ان کی زبانی ہو چکا ہے اور عرس اور قبر کا ماحول بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ 2۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ....:یعنی جو شخص مجبوری کی بنا پر ان حرام چیزوں کو کھا لے بشرطیکہ نہ انھیں حلال سمجھے اور نہ ضرورت سے آگے بڑھے تو تیرا رب نہایت بخشنے والا بے حد رحم والا ہے۔ سورۂ بقرہ میں صراحت ہے : ﴿فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ ﴾ [البقرۃ : ۱۷۳ ] ’’اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ‘‘ 3۔ اس آیت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ حرام چیزیں تو ان کے علاوہ بھی ہیں، پھر یہ فرمانے کا کیا مطلب کہ میں اپنی طرف کی ہوئی وحی میں ان کے علاوہ کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا؟ اس کا جواب سورۂ بقرہ کی آیت(۱۷۳) کی تفسیر میں گزر چکا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ دراصل اس زمانے کے مشرکین کے لحاظ سے بات ہو رہی ہے کہ انھوں نے بحیرہ، سائبہ وغیرہ کو حرام کر رکھا تھا اور مذکورہ بالا چاروں چیزیں وہ حلال سمجھتے اور کھاتے تھے، اس لیے فرمایا کہ میری وحی میں تو تمھاری حرام کردہ چیزیں حرام نہیں، صرف یہ چار چیزیں، جو تم بے دریغ کھاتے ہو، حرام ہیں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ان آیات کے اترنے تک یہی چیزیں حرام تھیں، بعد میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کئی چیزیں حرام فرمائیں، جیسے قرآن مجید میں وہ رشتے مذکور ہیں جن سے نکاح حرام ہے، باقی سب کو حلال فرمایا، مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں ان دو عورتوں کو جو آپس میں خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی ہوں، ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں مزید کئی جانوروں کو حرام قرار دینا ثابت ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۷۳) کے حواشی۔