وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ
اور تیرا رب غنی (133) ہے، رحمت والا ہے، اگر وہ چاہے گا تو تمہیں دنیا سے لے جائے گا اور تمہارے بعد جسے چاہے گا تمہاری جگہ لے آئے گا، جیسا کہ اس نے تمہیں دوسری قوم کی اولاد سے پیدا کیا تھا
1۔ وَ رَبُّكَ الْغَنِيُّ: یہاں ’’الْغَنِيُّ ‘‘ خبر معرفہ ہونے اور ’’الرَّحْمَةِ ‘‘ پر ’’الف لام‘‘ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ’’اور تیرا رب ہی ہر طرح بے پروا، کمال رحمت والا ہے‘‘ اس کے سوا کوئی اور نہ ہی بے پروا ہے نہ کمال رحمت والا، یعنی اسے مخلوق سے کوئی حاجت نہیں، پھر بھی بطور احسان کمال رحمت والا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پہلے جو نعمتیں ذکر ہوئی ہیں، مثلاً رسولوں کا بھیجنا وغیرہ، محض رحمت کی بنا پر ہیں، اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں۔ 2۔ ذُو الرَّحْمَةِ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ایک رحمت اس نے جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں اتاری ہے، وہ اسی ایک رحمت کی وجہ سے ایک دوسرے پر مہربانی کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی ایک رحمت کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور ننانویں رحمتیں اﷲ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہیں جو اپنے بندوں پر قیامت کے دن کرے گا۔‘‘ [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اﷲ تعالٰی ....:19؍ 2752] 3۔ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ ....: یعنی جس طرح تمھیں پہلے لوگوں کا جانشین بنایا اسی طرح تمھیں تباہ کر کے دوسروں کو تمھارا جانشین بنا سکتا ہے، یا یہ کہ اس کی قدرت جن و انس کو پیدا کرنے ہی پر منحصر نہیں، بلکہ وہ ان کے بجائے کوئی تیسری قسم کی مخلوق بھی پیدا کر سکتا ہے۔ (رازی) دیکھیے سورۂ نساء(۱۳۳)، سورۂ ابراہیم (20،19) اور سورۂ فاطر (۱۵ تا ۱۷)