يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے انبیاء و رسل (130) نہیں آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ کر سناتے تھے، اور آج کے دن سے تمہیں ڈراتے تھے، کہیں گے کہ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف (131) کرتے ہیں، اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا، اور اپنے بارے میں گواہی دیں گے کہ بے شک وہ کافر تھے
1۔ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ: ’’ تم میں سے رسول‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول جن و انس میں سے انسان ہی ہوئے ہیں۔ افضل مخلوق فرشتے ہیں یا انسان اس کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۹) اور سورۂ فرقان(۲۰) جنوں کا نبی ہونا ثابت نہیں، علمائے سلف و خلف کی اکثریت کا یہی قول ہے کہ کسی جن کو رسول نہیں بنایا گیا، البتہ ان میں سے کئی منذرین گزرے ہیں، یعنی اپنی قوم کو خبردار کرنے والے، جو انسانوں کی طرف آنے والے رسولوں پر ایمان لاکر اپنی قوم کو پیغام پہنچاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۲۹ تا ۳۲) اور سورۂ جن۔ دونوں میں جنوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اقرار کیا ہے اور اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی ہے، بلکہ سورۂ احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن پہلے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔ 2۔ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے، پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔ (موضح) دیکھیے سورۂ انعام (۲۳ اور ۲۷ تا ۳۰)، سورۂ حٰم السجدۃ (۲۰، ۲۱) اور سورۂ یٰسٓ(۶۵)۔