وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور جس دن اللہ تمام (جنوں اور انسانوں) کو اکٹھا (127) کرے گا اور کہے گا کہ اے جنوں کی جماعت ! تم نے تو انسانوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنا فرمانبردار بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم میں سے ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا تھا، اور ہم اس میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا، اللہ کہے گا کہ تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں ہمیشہ کے لیے رہو گے، مگر اللہ جو چاہے گا (128) (اسے ہونا ہے) (یعنی جسے چاہے گا اپنی مرضی سے جہنم سے نکال دے گا) بے شک آپ کا رب بڑی حکمتوں والا، بڑے علم والا ہے
1۔ وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا: جنوں سے مراد یہاں شیطان جن ہیں۔ ان کا بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لینے کا مطلب انھیں گمراہ کر کے اپنے راستے پر لگا لینا ہے اور جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انھوں نے ان کو گمراہی کی دعوت دی اور انھوں نے اسے قبول کر لیا اور ان کی تعظیم و تکریم اور مصیبتوں کے وقت ان کو پکارنا شروع کر دیا اور یہی شیاطین کی کامیابی ہے اور انسانوں کے جنوں سے فائدہ اٹھانے سے مراد ان سے آسمان کے فرشتوں سے سنی ہوئی خبریں، جو وہ جھوٹ ملا کر بتاتے ہیں، سن کر اپنی جھوٹی غیب دانی کا بازار چمکانا، جادو ٹونے میں ان سے مدد لینا وغیرہ ہے اور پھر لوگوں سے پیسے بٹورنا، مزید کئی فوائد حاصل کرنا اور انھیں گمراہ کرنا ہے۔ 2۔ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ: یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے بعد جو شخص بھی کسی جن سے کوئی فائدہ اٹھائے یا قید کر کے اس سے کوئی مقصد حاصل کرے تو اس شخص اور جن دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اسی لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شیطان جن کو نماز کے دوران آپ پر حملہ کرنے پر گرفتار کر لیا اور مسجد کے ستون سے باندھنے کا ارادہ کیا تو سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد کر کے اسے چھوڑ دیا کہ انھوں نے دعا کی تھی : ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ……﴾ [صٓ : ۳۴ تا ۴۰ ] مزید دیکھیے : سورۂ شعراء (۲۲۱ تا ۲۲۳) اور سورۂ جن(۶)۔ 3۔ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ: اس لفظ سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جہنم آخر ختم ہو جائے گی اس کے جواب میں شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو فرمایا کہ آگ میں رہا کریں گے مگر جو چاہے اﷲ تو یہ اس لیے کہ اگر دوزخ کا عذاب دائمی ہے تو اسی کے چاہنے سے ہے، وہ چاہے تو موقوف کرے مگر وہ چاہ چکا۔ (موضح)