قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس (دلوں کو روشن کرنے والے) دلائل (100) آچکے ہیں، تو جو کوئی ان سے بصیرت حاصل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا، اور جو اندھا ہوجائے گا تو اس کا نقصان اسی کو ہوگا، اور میں تمہارے اوپر نگہبان نہیں مقرر کیا گیا ہوں
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ....: ’’بَصَآىِٕرُ ‘‘ یہ ’’بَصِيْرَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، جو دل کی روشنی کا نام ہے، جیسا کہ بصارت آنکھوں سے دیکھنے کو کہتے ہیں، یعنی مالک کی طرف سے تمھارے پاس دل اور آنکھوں کو روشن کرنے والے دلائل تو پہنچ چکے، جو اوپر کی آیات میں مذکور ہیں، اب ان پر غور و فکر کر کے جو ایمان لے آئے تو اس کا اپنا ہی فائدہ ہے اور جو ان پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے تو اپنا ہی برا کرے گا۔ میں تم پر کوئی محافظ نہیں کہ تمھارے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود تمھیں سیدھی راہ پر ڈال سکوں، ہدایت دینا یا نہ دینا تو اللہ ہی کا کام ہے۔