وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ
اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک (96) بنایا حالانکہ انہیں اللہ نے پیدا کیا ہے، اور انہوں نے بغیر جانے سمجھے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لی ہیں، وہ ان باتوں سے پاک اور برتر ہے جو یہ لوگ اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ....: اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود برحق ہونے کے لیے آسمان و زمین اور ان کے درمیان والی چیزوں میں سے پانچ دلائل بیان فرمائے، اب بتایا کہ بعض لوگ پھر بھی اللہ کے لیے جنوں کو شریک بناتے ہیں، حالانکہ انھیں بھی اللہ ہی نے پیدا کیا ہے، پھر مخلوق کو خالق کا شریک ٹھہرانا سرا سر جہالت نہیں تو کیا ہے ؟ (رازی) عرب میں بعض فرقے ایسے بھی تھے جو جنات اور خبیث شیطانوں کی عبادت کرتے تھے اور مصیبت کے وقت ان کے نام کی دہائی دیتے اور کائنات میں ان کا تصرف مانتے تھے۔ ان سب کی اس آیت میں تردید فرمائی کہ بے سمجھے انھوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں۔ چنانچہ عرب کے مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا، اللہ تعالیٰ ان گھڑی ہوئی باتوں سے پاک ہے۔ بعض سلف نے فرمایا کہ یہ آیت ان زندیقوں اور مجوسیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کو انسانوں، جانوروں اور ہر اچھی چیز کا خالق سمجھتے اور اسے ’’یزداں‘‘ کہتے تھے اور شیطان ( ابلیس) کو درندوں، سانپوں اور ہر قسم کے شر کا خالق سمجھتے تھے اور اسے ’’اہرمن‘‘ کہتے تھے اور ان دونوں کو کائنات کے پیدا کرنے میں اللہ کا شریک بناتے تھے، حالانکہ ان کا اور ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے اہل علم نے مجوس کو زنادقہ (بالکل بے دین) قرار دیا ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ زیر تفسیر آیت کی مذکورہ توجیہات میں سے یہ بہترین توجیہ ہے۔