وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور میں ان سے کیسے ڈروں (77) جنہٰں تم اللہ شریک بناتے ہو، اور تم لوگ اس بات سے نہیں ڈرتے ہو کہ تم نے اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو بنا رکھا ہے جن کی اللہ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری ہے، پھر اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ دونوں میں سے کون سی جماعت امن کی زیادہ حقدار ہے
1۔ وَ كَيْفَ اَخَافُ ....: یہ اوپر کی آیت میں دوسرے جواب کو مکمل کیا ہے، یعنی میں تمھارے ان معبودوں سے کیوں ڈروں، جب کہ مجھے یقین ہے کہ یہ مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈرنا تو تمھیں چاہیے جو بلا دلیل اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا کر ظلم عظیم کر رہے ہو۔ 2۔ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ....: ہم دونوں میں سے کون امن ( بے خوف ہونے) کا زیادہ حق دار ہے؟ کیا تم مشرکین، جو ان بتوں کے متعلق محض وہم پرستی کی راہ سے یہ سمجھ رہے ہو کہ شاید یہ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، یا ہم خالص توحید پرست، جنھیں یہ یقین و اطمینان حاصل ہے کہ اللہ ہی ہر نفع و نقصان پر قادر ہے اور اس کے سوا دنیا کی کوئی مردہ یا زندہ ہستی ہمارا ذرہ بھر نقصان نہیں کر سکتی۔ اس امت کے کلمہ گو پیر پرست بھی اہل توحید سے کہتے ہیں کہ جو شخص بڑے پیر کی گیارھویں چھوڑ دے اس کا بیٹا یا بھینس مر جاتی ہے، یا کوئی اور نقصان پہنچ سکتا ہے، تو ان کے لیے بھی یہی جواب ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ہے۔