وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اور ان کی قوم نے ان سے جھگڑنا (75) شروع کردیا، انہوں نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اس نے مجھے سیدھی راہ دکھائی ہے، اور میں ان معبودوں سے نہیں ڈرتا (76) ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، مگر یہ کہ میرے رب کی ہی کوئی مشیت ہو، میرے رب کا علم ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، کیا تم لوگ نصیحت نہیں حاصل کرتے ہو
1۔ وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ ....: قوم کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا تو ان کی قوم نے اپنے عقیدے کے صحیح ہونے کے بہت سے دلائل پیش کیے، مثلاً انھوں نے ایک دلیل یہ پیش کی : ﴿اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ ﴾ [ الزخرف : ۲۲ ] ’’بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے۔‘‘ نیز ابراہیم علیہ السلام کو دھمکی دی کہ یہ بت تمھیں آفات اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ فرما کر ’’وَ قَدْ هَدٰىنِ ‘‘ (اللہ نے مجھے سیدھا راستہ بتا دیا ہے) ان کی پہلی دلیل کا جواب دیا کہ یقینی دلیل کے مقابلے میں تمھارے باپ دادا کا دین بے معنی ہے اور ان کی دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ پروردگار کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچنی ہو تو پہنچ سکتی ہے مگر یہ تمھارے بت اور جھوٹے پروردگار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (رازی) 2۔ وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا: ہر چیز کی حقیقت و اصلیت کا علم میرے رب کو ہے، اس لیے وہی بتا سکتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے، جب اس نے مجھے ہدایت کا علم عطا فرما دیا ہے تو پھر ہدایت کوئی اور چیز کیسے ہو سکتی ہے، تو کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے؟