وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح غالب ہے، اور وہ تم پر نگراں فرشتے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں، اور اس بارے میں وہ کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے ہیں
1۔ وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ:’’هُوَ‘‘اس جملےمیں مبتدا ہے، ’’الْقَاهِرُ‘‘ خبر پر الف لام آنے کی وجہ سے ترجمہ ’’وہی‘‘ کیا ہے۔ ’’الْقَاهِرُ ‘‘ کے معنی غالب ہیں اور یہ ’’اَلْقَادِرُ ‘‘ سے زائد صفت ہے، یعنی خود قادر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے کو مراد حاصل کرنے سے روک دینے والا بھی ہے۔ (بغوی) اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت یہ ہے کہ وہ کائنات کو عدم سے وجود میں لایا، پھر وجود پر فنا اور خرابی طاری کرتا رہتا ہے، تو کائنات میں جس قدر بھی پیدا کرنے اور فنا کرنے کا کام ہو رہا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قہاریت کا مظہر ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیات (۲۶، ۲۷) اس صفت کی پوری تشریح کر رہی ہیں۔ 2۔ وَ يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً: حفاظت کرنے والے کچھ فرشتے تو وہ ہیں جو انسان کی آفات سے حفاظت کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ﴾ [ الرعد : ۱۱ ] ’’اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ اور کچھ وہ ہیں جو انسان کا عمل لکھتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ(10)كِرَامًا كَاتِبِيْنَ(11)يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾ [ الانفطار : ۱۰ تا ۱۲ ] ’’حالانکہ بلاشبہ تم پر یقیناً نگہبان ( مقرر) ہیں۔ جو بہت عزت والے لکھنے والے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔‘‘ 3۔ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ....: فوت کرنے والے فرشتے کا نام عزرائیل مشہور ہے، لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ نے ایسی تمام روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [ أحکام الجنائز، باب بدع الجنائز، حاشیہ بدعۃ، رقم : ۹۲ ] قرآن مجید میں اسے ملک الموت کہا گیا ہے، فرمایا : ﴿قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ ﴾ [ السجدۃ : ۱۱] ’’کہہ دے تمھیں موت کا فرشتہ قبض کر لے گا۔‘‘ ’’تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ موت والے کئی فرشتے ہیں اور کئی آیات میں اللہ تعالیٰ کے روح قبض کرنے کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : ﴿اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا﴾ [ الزمر : ۴۲ ] ’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے۔‘‘ ان تمام آیات کو مد نظر رکھیں تو صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، جس کے حکم سے سب کچھ ہوتا ہے، پھر ملک الموت ہے، جو اکثر علماء کے نزدیک ایک ہی ہے، البتہ اس کے معاون رحمت اور عذاب کے فرشتے کئی ہیں، جیسا کہ زیر تفسیر آیت اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آیا ہے کہ ملک الموت کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے بھی ہوتے ہیں۔ 4۔ وَ هُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ: یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقررہ وقت پر کرتے ہیں، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ۔