سورة الانعام - آیت 51

وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس قرآن کے ذریعہ آپ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت (50) کیجیے، جو اپنے رب کے حضور جمع کیے جانے سے ڈرتے ہیں، جب اس ذات باری تعالیٰ کے علاوہ ان کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی، شاید کہ وہ تقوی کی راہ اختیار کریں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ....: اوپر کی آیت میں پیغمبروں کے متعلق فرمایا کہ وہ مبشر (خوشخبری دینے والے) اور منذر (ڈرانے والے) ہوتے ہیں، اب اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انذار ( ڈرانے) کا حکم دیا۔ (رازی) یعنی ڈرانے کا فائدہ انھی کو ہو سکتا ہے جنھیں دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا خوف ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا نہ ان کی حمایت کرنے والا کوئی مدد گار ہو گا اور نہ سفارشی۔ جو لوگ حشر اور قیامت کو مانتے ہی نہیں اور انکار پر اڑے ہوئے ہیں انھیں آپ کے ڈرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، فرمایا : ﴿ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۶ ] ’’ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو، یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ : یعنی ان لوگوں کو ڈرانے کا یہ فائدہ ہو گا کہ آپ کے ڈرانے سے ان میں اللہ کا خوف اور زیادہ ہو جائے گا اور وہ گناہوں سے باز آجائیں گے۔ اس آیت سے ان کافروں کا رد بھی مقصود ہے جو یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے معبود اور ٹھاکر وغیرہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے انھیں بچا لیں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی اس میں عبرت ہے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کر کے بے فکر ہو کر بے کھٹکے گناہ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی سفارش نہیں چل سکے گی۔