وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ
اور ہم نے آپ سے پہلے دوسری امتوں کے پاس بھی (انبیاء و رسل) بھیجے (44) پھر ہم نے انہیں بھوک اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید عاجزی و انکساری اختیار کریں
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ ....: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر فرمایا ہے جن کے دل ایسے سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے بداعمال کو ان کے لیے ایسا خوبصورت بنا دیا کہ وہ اللہ کا عذاب آنے پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے دنیاوی اسباب ہی کو اس عذاب کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ حالانکہ مصائب و آفات بھیجنے کا مقصد لوگوں کو اپنی روش سے باز آنے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ اس موقع کو بھی گنوا دیتے ہیں۔ کیا آج کل ہم مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال نہیں ہو گیا کہ جب کوئی جنگ یا قحط یا سیلاب یا زلزلہ یا کوئی دوسری اجتماعی آفت ہم پر نازل ہوتی ہے تو ہم میں سے کئی افراد اسے محض مادی اسباب کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور سزا سمجھنے کو جہالت اور بے وقوفی قرار دیتے ہیں، خصوصاً منکرین حدیث اور کفار سے مرعوب لوگوں کا یہی حال ہے۔