وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور جو کچھ رات اور دن میں وقوع پذیر (18) ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوت اہے، اور وہ سب سے زیادہ سننے والا، سے سے زیادہ جاننے والا ہے
وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَ النَّهَارِ....: گزشتہ آیت : ﴿قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ میں مکان (جگہ) کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ بادشاہ ہونے کا بیان تھا، اس آیت میں زمان اور وقت کے اعتبار سے اس کی بادشاہی عام ہونے کا ذکر ہے۔ کیونکہ آسمان و زمین کے سوا کوئی مکان ( جگہ) نہیں اور رات اور دن کے سوا کوئی زمانہ ( وقت) نہیں، گویا ہر جگہ اور ہر وقت اسی کی حکومت اور اسی کا قبضہ و اقتدار ہے۔ پھر یہ ثابت کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمام جگہوں اور تمام اوقات اور زمانوں کا مالک ہے، فرمایا: ﴿وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ یعنی وہ ہر چیز کی دعا اور پکار سنتا ہے۔ ’’الْعَلِيْمُ ‘‘ ہر چیز کے عمل اور اس کی ضرورت سے آگاہ ہے تو پھر کسی اور کو پکارنے کی ضرورت کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں ’’ مَا سَكَنَ‘‘میں سکون سے مراد حلول، یعنی رہنا ہے اور سکون جو حرکت کی ضد ہے وہ مراد نہیں۔ اس لیے ٹھہرا ہوا ہے کا معنی بھی یہی ہے کہ جو بھی رات اور دن میں بس رہا ہے۔