وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور اگر ہم آپ پر کاغذ (9) پر لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کرتے، جسے وہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھوتے تو بھی اہل کفر یہی کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا.... : اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو انبیاء کے معجزات کی کوئی الٹی سیدھی تاویل کر کے انھیں جھٹلا دیتے تھے۔ ( رازی) اس آیت میں کفار مکہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کے لیے پیش کردہ فرمائشوں میں سے ایک فرمائش (بنی اسرائیل : ۹۳) کا جواب ہے کہ ہم اس وقت تک تمھارے آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے جب تک تم ہم پر ایسی کتاب نازل نہیں کرتے جسے ہم خود پڑھیں۔ یہ لوگ اپنی سرکشی اور کفر کی روش میں اس قدر پختہ ہیں کہ اگر ہم ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے، جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر صاف معلوم کر لیتے کہ یہ کوئی خیالی اور نظر بندی جیسی چیز نہیں، بلکہ حقیقت ہے، تب بھی یہ لوگ اسے کھلا جادو قرار دیتے، پھر اگر یہ بد بخت قرآن کو جادو قرار دیتے ہیں تو کیا تعجب ہے ؟ (قرطبی) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جس کی قسمت میں ہدایت نہیں اس کا شبہ نہیں مٹتا۔‘‘ (موضح) مزید دیکھیے سورۂ حجر (۱۴، ۱۵) اور طور (۴۴)۔