وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ
اور آسمانوں اور زمین میں صرف وہی اللہ (5) (عبادت کے لائق) ہے، وہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر سبھی احوال کو جانتا ہے، اور تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے
وَ هُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ فِي الْاَرْضِ.... : اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کو ثابت کیا ہے، اس آیت میں اس کے علم کا کامل ہونا ثابت فرمایا ہے، یعنی وہی ہستی ہے جسے آسمانوں اور زمین میں اللہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ آیت تقریباً اس آیت کی ہم معنی ہے : ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ﴾ [الزخرف : ۸۴]’’اور وہی ہے جو آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی آسمانوں اور زمین میں ایک ہی ذات ہے جسے ’’اللہ ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، جس کی آسمانوں اور زمین دونوں میں حکومت ہے اور دونوں میں اس اکیلے ہی کی عبادت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ تمھاری ہر چھپی یا کھلی بات کو اور تمھارے ہر عمل کو جانتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کا کمال ثابت ہوتا ہے اور یہ کمال اس کے معبود برحق ہونے کی ایک دلیل ہے۔ بعض لوگ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ ہے اور کوئی عرش وغیرہ نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ بلند ہو، حالانکہ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں، کیونکہ آیت میں اس کی ذات یا شخصیت کے آسمان و زمین میں ہونے کا بیان نہیں بلکہ زمین و آسمان میں اس کے ’’الله‘‘ یعنی معبود برحق ہونے کا بیان ہے، رہی اس کی ذات تو قرآن مجید میں اس کے عرش کا اور اللہ تعالیٰ کے اس کے اوپر ہونے کا واضح بیان ہے۔ قرآن کریم میں تقریباً اٹھارہ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش کا ذکر ہے، اور آٹھ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے اوپر ہے، البتہ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے۔ اس لیے یہاں اس کے زمین و آسمان میں اللہ اور الٰہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ دونوں جگہ عبادت اسی کی کرنا لازم ہے اور دونوں جگہ وہی ہے جو کمال علم کی وجہ سے معبود برحق ہونے کا حق دار ہے۔