سورة المآئدہ - آیت 117

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا، کہ (اے اللہ کے بندو !) تم لوگ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے، اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کے اعمال پر شاہد رہا، پس جب تو نے مجھے (143) لیا تو اس کے بعد تو ہی ان کے اعمال سے باخبر رہا، اور تو ہر چیز کا نگہبان ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ.... : یعنی صرف اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا سب کا رب ہے۔ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ: اس آیت سے قادیانی استدلال کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ عیسیٰ علیہ السلام یہ بیان قیامت کے دن دیں گے جب وہ زمین پر آنے کے بعد اپنی عمر پوری کر کے فوت ہو چکے ہوں گے۔ اگر اصرار کیا جائے کہ ’’تَوَفَّيْتَنِيْ ‘‘ سے مراد پہلا وقت ہے، جب انھیں آسمان پر اٹھایا گیا تھا تو معلوم ہونا چاہیے کہ لفظ وفات قرآن پاک میں تین معنی میں آیا ہے، ایک موت، جیسے : ﴿اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا ﴾ [ الزمر : ۴۲ ] ’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے۔‘‘ دوسرے نیند، جیسے : ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ ﴾ [الأنعام : ۶۰ ] ’’اور وہی ہے جو تمھیں رات کو قبض کر لیتا ہے۔‘‘ تیسرے جسم سمیت اٹھا کر لے جانا، جیسے یہاں ہے اور سورۂ آل عمران (۵۵) اور سورۂ نساء (۱۵۸) میں ہے۔ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ....: یعنی میں تو اس وقت تک کے ان کے ظاہری اعمال کی شہادت دے سکتا ہوں جب تک میں ان کے اندر موجود تھا، جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر شہید ہے، یعنی ان میں میری موجودگی کے وقت بھی توہی شہید تھا اور میرے الگ ہونے کے بعد بھی تو ہی شہید ہے۔ شہید اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ شہادت دیکھنے، سننے اور جاننے کے معنی میں بھی ہو سکتی ہے اور کلام کے ساتھ شہادت دینے کے معنی میں بھی۔ (کبیر) مگر دوسروں کے حق میں مطلق شہید یا شاہد کا لفظ (جب کہ کوئی خاص قرینہ نہ ہو) توکلام کے ساتھ شہادت کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز اور ہر شخص کی ہر وقت خبر رکھنے والا ایک اللہ ہی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن میری امت کے کچھ آدمیوں کو لایا جائے گا تو انھیں بائیں طرف کر دیا جائے گا، میں کہوں گا : ’’یہ تو میرے ساتھی ہیں۔‘‘ تو کہا جائے گا : ’’تو نہیں جانتا کہ انھوں نے تیرے بعد کیا نیا کام شروع کر دیا تھا۔‘‘ تب میں بھی اسی طرح کہوں گا جیسے اللہ کے نیک بندے ( عیسیٰ علیہ السلام ) کہیں گے : ﴿وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ﴾ پھر کہا جائے گا کہ جب سے آپ ان سے جدا ہوئے یہ اپنی ایڑیوں پر پھرنے والے (مرتد) ہی رہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب : ﴿وکنت علیہم…﴾ : ۴۶۲۵ ]