مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بحیرہ (128) بنایا ہے اور نہ کوئی سائبہ، اور نہ کوئی وصیلہ، اور نہ کوئی حام، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہیں
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ.... : اوپر کی آیات میں ایسی باتوں کو کرید کرنے اور ایسے سوال کرنے سے منع فرمایا جو لوگوں پر لازم نہیں کی گئیں، اب اس آیت میں ایسے کام اپنے اوپر لازم کر لینے سے منع فرمایا جو اللہ کی طرف سے لازم نہ ہوں۔ (کبیر) اہل عرب زمانۂ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے، پھر ان سے فائدہ اٹھانا حرام سمجھتے۔ یہاں چار قسم کے جانور بیان کیے ہیں، سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (1) ’’بحیرہ‘‘ وہ جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک لیا جاتا، پھر لوگوں میں سے کوئی اسے نہیں دوھتا تھا۔ (2) ’’سائبہ‘‘ وہ جسے وہ اپنے معبودوں کے لیے کھلا چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی چیز نہیں لادی جاتی تھی۔ (3) ’’وصیلہ ‘‘وہ اونٹنی جو پہلی دفعہ مادہ بچہ دیتی، پھر دوسری بار بھی مادہ بچہ دیتی، وہ اسے اپنے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ( کیونکہ وصیلہ وصل سے نکلا ہے) یہ نام اس لیے رکھتے کہ اس نے دو مادہ بچے یکے بعد دیگرے جنے ہیں، بیچ میں نر نہیں ہے۔ (4) ’’حام ‘‘ وہ سانڈ اونٹ جس کے جفتی کرنے سے اونٹنیوں کی ایک مخصوص تعداد حاملہ ہوتی، اسے وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی چیز نہ لادتے اور اس کا نام ’’حامی‘‘ رکھتے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچ رہا تھا، یہ پہلا شخص تھا جس نے سائبہ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔‘‘[ بخاری، التفسیر، باب : ﴿ما جعل اللّٰہ من بحیرۃ …﴾ : ۴۶۲۳ ] بحیرہ، سائبہ وغیرہ کی یہ تفسیر سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کی ہے، مشرکین عرب کسی ایک دین پر تو متفق تھے نہیں، خصوصاً بدعات ہر قبیلے کی الگ الگ ہوتی ہیں، اس لیے تابعین سے ان چاروں کی تفسیر اور بھی آئی ہے، چنانچہ بعض نے فرمایا کہ بحیرہ وہ ہے جس کا کان بتوں کے نام پر پھاڑا ہوا ہو۔ یہ ’’بحر ‘‘ سے ’’ فَعِيْلَةٌ ‘‘ بمعنی ’’ مَفْعُوْلَةٌ ‘‘ ہے، جس کا معنی شق یعنی پھاڑنا ہے۔ سائبہ آزاد چھوڑی ہوئی، جس اونٹنی کے پیٹ سے دس بچے سب کے سب مؤنث پیدا ہوتے تو اسے چھوڑ دیتے، نہ اس پر سواری کی جاتی نہ اس کے بچے اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ پیتا۔ وصیلہ دو مادہ بچے سات مرتبہ یکے بعد دیگرے لانے والی۔ حامی یعنی اپنی حفاظت کرنے والا، جس اونٹ کی پشت سے دس بچے پیدا ہو جاتے اسے سانڈ بنا کر چھوڑ دیتے کہ اس نے اپنی پشت محفوظ کر لی ہے، پھر اس پر نہ سواری کی جاتی نہ بوجھ لادا جاتا نہ اسے پانی یا چارے سے روکا جاتا۔ مزید ظلم یہ کرتے کہ ایسا کرنے کو اللہ کا حکم قرار دیتے۔ اللہ نے اس کی تردید ’’ مَا جَعَلَ اللّٰهُ ‘‘ کہہ کر فرمائی۔ ان کی دوسری تشریحات بھی تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں اور اس کی وجہ اوپر گزر چکی کہ عرب کے جاہلوں میں سے ہر ایک کا الگ ہی طریقہ تھا۔ غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑنے کا یہ سلسلہ اب بھی کفار کے علاوہ نام نہاد مسلمانوں میں جاری ہے، مثلاً پیروں کی گائیں، یا مختلف درباروں کے نام کے جانور جہاں چاہیں پھریں، انھیں کچھ نہیں کہا جاتا۔