يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال بنائی ہیں انہیں حرام (109) نہ بناؤ، اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے
لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ.... : عہد توڑنے کے سلسلہ میں یہود و نصاریٰ سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر توجہ کی ہے، یعنی ’’اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ‘‘ کی تشریح جو اس سورت کا بنیادی موضوع ہے۔ (قرطبی، رازی) نصاریٰ کے راہبوں کی تعریف کے بعد پاکیزہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے سے منع کرنا اس لیے بھی زیادہ مناسب تھا کہ انھوں نے ان باتوں کو نیکی میں داخل کر رکھا تھا، لہٰذا مومنین کو اس سے منع فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت سے متعلق فرمایا : ﴿وَ رَهْبَانِيَّةَ اِبْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ﴾ [ الحدید : ۲۷ ] ’’ اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کر لی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو چیز شرع میں صاف حلال ہو اس سے پرہیز کرنا برا ہے، یہ دو طرح سے ہوتا ہے، ایک زہد سے، یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسندیدہ نہیں ہے، اس کے بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے، یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے۔ دوم یہ کہ کسی مباح (جائز) کام کے نہ کرنے کی قسم کھا لے، یہ بھی بہتر نہیں، اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔‘‘(موضح) انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں میں آئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق دریافت کر رہے تھے، جب انھیں اس کے متعلق بتایا گیا تو جیسے انھوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے، ہماری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت ؟ آپ کے تو پہلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ان میں سے ایک نے کہا، میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔دوسرے نے کہا، میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا، میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو فرمایا : ’’ تمھی لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس سے بچنے والا ہوں، لیکن روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، تو جو میری سنت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ [ مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ....: ۱۴۰۱۔ بخاری : ۵۰۶۳ ] اس سلسلے میں اور بھی کئی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کسی موقع پر نازل ہوئی۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ کرتے تھے، ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں تو ہم نے عرض کیا، ہم خصی نہ ہو جائیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا، پھر ہمیں رخصت دے دی کہ ہم کپڑے کے ساتھ عورت سے نکاح کرلیں، پھر یہ آیت پڑھی : ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ﴾ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالٰی : یأیہا الذین آمنوا ....: ۴۶۱۵ ] واضح رہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ ہمیشہ کے لیے حرام فرما دیا، چنانچہ سبرہ (بن معبد) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک حرام فرما دیا ہے تو جس شخص کے پاس ایسی عورتوں میں سے کوئی موجود ہو وہ اسے چھوڑ دے اور تم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے کوئی چیز واپس نہ لو۔‘‘ [ مسلم، النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان أنہ ....:21؍1406 ]