وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ قرآن سنتے ہیں، تو آپ دیکھتے ہیں کہ حق کے عرفان کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری (108) ہوجاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے، اس لیے تو ہمارا نام حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے
1۔ وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ.... : مفسرین کے بیان کے مطابق ان سے مراد نصاریٰ کے وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے، سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو میں نے کھانا تیار کیا اور اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سلمان ! یہ کیا ہے ؟‘‘ میں نے کہا : ’’صدقہ ہے۔‘‘ تو آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کھاؤ اور خود نہیں کھایا۔ چنانچہ میں واپس آ گیا، پھر کچھ کھانا اکٹھا کیا اور اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : ’’سلمان! یہ کیا ہے ؟‘‘ میں نے کہا : ’’ہدیہ ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایا اور کھایا اور (ساتھ ہی) اپنے ساتھیوں سے بھی فرمایا کہ کھاؤ۔ میں نے کہا : ’’آپ مجھے نصاریٰ کے متعلق بتائیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ان میں کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘ میں بوجھل دل کے ساتھ اٹھ آیا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل کیں : ﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ … تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ﴾ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا اور مجھے فرمایا : ’’سلمان ! یہ ( آنسوؤں والے) تیرے وہ ساتھی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔‘‘ [ المعجم الکبیر :6؍49، ح : ۶۱۲۱ ] سلیم الہلالی اور ان کے ساتھی نے اس حدیث کو ’’کتاب الاستیعاب فی بیان الاسباب‘‘ میں صحیح کہا ہے۔ ان لوگوں میں نجاشی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی بھی شامل ہیں کہ جب مکہ میں مسلمان ہونے والے صحابہ ہجرت کر کے نجاشی کے ملک حبشہ میں گئے اور انھیں کفار مکہ کے سفیروں کی شکایت پر بادشاہ کے دربار میں بلایا گیا تو جعفر رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے تقریر کی اور اس میں سورۂ مریم کی تلاوت کی، جس میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے، تو نجاشی اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور نجاشی ( رضی اللہ عنہ ) مسلمان ہو گئے، اگرچہ وہ مدینہ نہیں جا سکے مگر ان کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا غائبانہ جنازہ پڑھایا۔ اس کے علاوہ ایسے مسلمان ہونے والے نصاریٰ کا ذکر دوسر ے مقامات پر بھی فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۹۹) اور سورۂ قصص (۵۲ تا ۵۵) اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہرے اجر کی بشارت دی۔ [ بخاری، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ : ۹۷ ] 2۔ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ: یعنی ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل فرما کر ان کی طرح شہادت دینے والوں میں شامل فرما۔ امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شہادت سے متعلق دیکھیں سورۂ بقرہ (۱۴۳) یا یہ کہ انبیاء اور مومنین جو توحید کی گواہی دیتے ہیں، ان کی جماعت میں شامل فرما۔