فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ
اس لیے آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری (76) ہے، دیکھ رہے ہیں کہ ان میں مل جانے کے لیے جلدی کر رہے ہیں، کہتے ہیں، ڈر ہے کہ ہمیں کوئی مصیبت لاحق ہوجائے گی، پس توقع ہے کہ اللہ (مسلمانوں کے لیے) فتح یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز بھیج دے، پھر وہ ان باتوں پر نادم ہوں جنہیں اپنے دلوں میں چھپا رکھا تھا
فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ....:یعنی منافقین جو یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے اور ان کے ساتھ دوستی کیے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مسلمان زمانے کے کسی چکر میں آ کر مغلوب نہ ہو جائیں، پھر ہمارا کیا بنے گا، اس وقت ان کی دوستی ہمارے کام آئے گی، سو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے، بلکہ یقیناً ہو گا (لفظ ’’عَسٰي‘‘ اﷲ اور رسول کے فرمان میں یقین کے معنی میں آتا ہے) کہ مسلمانوں کو فتح ہو گی، کافر مغلوب ہوں گے، پھر وہ قتل ہوں گے، یا جلاوطن ہوں گے، یا انھیں جزیہ دینا پڑے گا، پھر ان منافقین کو ندامت ہو گی کہ ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، بنو قریظہ کے یہودی قتل ہوئے، بنو نضیر کو سر زمین مدینہ سے نکال دیا گیا اور یہ لوگ اپنے نفاق پر کفِ افسوس ملتے رہ گئے۔