أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کیا آپ نہیں جانتے کہ آسمانون اور زمین کا مالک صرف اللہ ہے، وہ جسے چاہے گا، عذاب دے گا، اور جسے چاہے گا، معاف کردے گا، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ …....: یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی تعجب نہ کرے کہ چور کو تھوڑی خطا پر بڑی سزا فرمائی۔ (موضح) اس آیت کا خطاب تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مراد تمام لوگ ہیں، یا ہر شخص سے خطاب ہے۔ (فتح البیان) یعنی اﷲ تعالیٰ کے ہاں سے کسی کو رعایت نہیں مل سکتی، جو بھی جرم کرے گا اسے سزا ملے گی، اس معاملے میں کسی بڑے مرتبے والے کو چھوٹے پر فوقیت نہیں، یا یہ کہ اﷲ تعالیٰ جس جرم پر جو سزا چاہے مقرر فرما دے، اسے مخلوق پر کل اختیار ہے۔ (قرطبی) ایک ملحد شاعر ابو العلاء معری نے اﷲ تعالیٰ کے اس حکم پر اعتراض کیا کہ دیکھیے ایک ہاتھ جس کی دیت پچاس اونٹ تھی، وہ چوتھائی دینار کی حقیر مالیت پر کاٹ دیا گیا، یہ عجیب تناقض ہے، پھر قرآن پر اعتراض کی وجہ سے گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگ گیا۔ چنانچہ بہت سے علماء نے اس کا جواب لکھا، قاضی عبد الوہاب نے کہا : ’’لَمَّا كَانَتْ اَمِيْنَةً كَانَتْ ثَمِيْنَةً فَلَمَّا خَانَتْ هَانَتْ‘‘ ’’جب تک ہاتھ امین تھا قیمتی تھا جب خیانت کی تو بے قدر ہو گیا۔‘‘ (ابن کثیر) سزاؤں کا ایک مقصد گناہوں سے روکنا بھی ہے، ہاتھ کاٹنے سے روکنے کے لیے ہاتھ کی دیت زیادہ رکھنا ضروری تھا، تاکہ لوگ کسی کا ہاتھ کاٹنے سے بچیں اور چوری سے روکنے کے لیے ہاتھ کاٹنے کا نصاب کم مقرر کرنا ضروری تھا، تاکہ لوگ چوری سے بچیں۔