لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ
اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاؤ گے، تو میں تمہیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تمہاری طرف نہیں بڑھاؤں گا، بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا پالنہار ہے
لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ …....: یعنی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تمھاری طرف نہیں بڑھاؤں گا، اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ اٹھاؤں تو الگ بات ہے، کیونکہ اپنا دفاع تو ضروری ہے اور اس پر امت مسلمہ کا بھی اجماع ہے۔ (قرطبی) اگر مقتول بھی اپنے قاتل کو قتل کرنے کے پیچھے لگا ہوا ہو تو ایسی صورت میں دونوں جہنمی ہیں، جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔‘‘ احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ’’ اے اﷲ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے، مقتول کا کیا قصور ہے؟‘‘ فرمایا : ’’اس لیے کہ وہ بھی اپنے قاتل کے قتل پر حریص تھا۔‘‘ [ بخاری، الإیمان، باب : ﴿ و ان طائفتان من المؤمنين…… ﴾ :۳۱ ]