وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے (38) ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتا ہے، بلکہ تم بھی اس کے پیدا کیے ہوئے انسان ہو، وہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے، اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، اور اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے
وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ …....: اس آیتِ کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی ایک اور گمراہی بیان کی گئی ہے کہ ہم تو اﷲ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب لوگ ہیں، چنانچہ بائبل میں آج تک اس قسم کے حوالے موجود ہیں : ’’ خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے۔‘‘ (خروج : ۴:۲۲) ’’تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو۔‘‘ (استثناء : ۱۴ : ۲۲ ) اور انجیل میں ہے کہ مسیح علیہ السلام نے نصاریٰ سے کہا : ’’ میں اپنے اور تمھارے باپ کے پاس جاتا ہوں۔ ‘‘ اگرچہ بعض یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ بیٹے سے مراد پیارا اور محبوب ہے، مگر پھر بھی ان کا یہ فخر اور دوسروں پر برتری کا اظہار کہ ہم خاص حق کے مقرب اور اونچے طبقے کے لوگ ہیں، جیسے برہمن وغیرہ کہتے ہیں، بالکل غلط ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی اور کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر اﷲ تمھارے گناہوں کی وجہ سے تمھیں عذاب کیوں دے گا! کہیں کوئی محب اپنے حبیب کو عذاب دیتا ہے؟ حالانکہ تم خود اپنی زبان سے اعتراف کرتے ہو کہ ہمیں صرف گنتی کے دن آگ میں ڈالا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا یہ گمان، جس کے سہارے تم جی رہے ہو، سراسر باطل ہے۔ تم تو انسان ہو، اﷲ کا تم سے تعلق بس وہی ہے جو خالق کا مخلوق سے اور مالک کا غلام سے ہوتا ہے، وہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے۔ کوئی کتنا بھی مقرب ہو یا سید یا برہمن یا پیر و مرشد ہو، اگر اﷲ تعالیٰ نہ چاہے تو نہ خود عذاب سے بچ سکتا ہے نہ کسی کو بچا سکتا ہے۔ یہ سب تو خود اس کے حضور پیش ہوں گے اور لرز رہے ہوں گے کہ ہمارا کیا فیصلہ ہوتا ہے، تم اپنی جھوٹی امیدوں سے کیوں اپنی بربادی کر رہے ہو۔