يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے رسول (36) آگئے، جو تمہارے سامنے تمہاری کتاب کی بہت سی ان باتوں کو بیان کرتے ہیں جنہیں تم چھپایا کرتے تھے، اور بہت سی باتوں کو نظر انداز کرجاتے ہیں، تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کھلی کتاب آچکی ہے
1۔ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا....:یہود و نصاریٰ کے عہد توڑنے اور حق سے منہ موڑنے کا ذکر کرنے کے بعد اب ان کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ (کبیر) اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ بہت سے احکام جو وہ چھپایا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بیان کرتے ہیں، جیسے رجم کی آیت، سبت والوں کا قصہ جن کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھا، اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے متعلق آیات، الغرض! یہود ان تمام باتوں کو چھپایا کرتے تھے۔ عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت کو لایا گیا، جنھوں نے زنا کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ’’تم اپنی کتاب میں اس کے بارے میں کیا حکم پاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہمارے علماء نے (اس کی سزا) چہرے کو سیاہ کرنا اور گدھے پر گشت کروانا تجویز کی ہوئی ہے۔‘‘ عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ اے اﷲ کے رسول ! ان (کے علماء) کو تورات سمیت بلائیے۔‘‘ چنانچہ تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنا شروع کر دیا، عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : ’’اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔‘‘ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے سے رجم کی آیت نکلی۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ دونوں سنگسار کر دیے گئے۔ [ بخاری، الحدود، باب الرجم فی البلاط : ۶۸۱۹ ] 2۔ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌ : نور سے مراد اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہی ہے۔ واؤ عاطفہ دونوں کو الگ الگ بتانے کے لیے نہیں بلکہ تفسیر کے لیے ہے، یعنی کتاب مبین اس نور کی تفسیر ہے، جس کی واضح دلیل ایک تو اس سے بعد والی یہ آیت ہے : ﴿ يَهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ﴾ یعنی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے۔ اب اس آیت میں اگر نور اور کتاب مبین الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ’’ يَهْدِيْ بِهِمَا اللّٰهُ ‘‘ (اﷲ ان دونوں کے ساتھ ہدایت دیتا ہے) ہوتے۔ دوسری جگہ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نور قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا : ﴿فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ [الأعراف : ۱۵۷ ] ’’سو وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ معلوم ہوا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اترنے والی کتاب ہی نور ہے۔ اسی طرح فرمایا : ﴿فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِيْۤ اَنْزَلْنَا ﴾ [ التغابن : ۸ ] ’’سو تم اﷲ اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا۔‘‘ قرآن مجید کے لیے نور کا لفظ سورۂ نساء اور دوسرے مقامات میں بھی آیا ہے، فرمایا: ﴿يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا ﴾ [ النساء : ۱۷۴ ] ’’اے لوگو! بلاشبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایک واضح نور نازل کیا ہے۔‘‘ بعض مفسرین نے نور سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید لیا ہے۔ اس صورت میں بھی معنی یہ ہو گا کہ اﷲ کی طرف سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشنی بن کر اور قرآن ایک کتاب مبین بن کر آئے ہیں، جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے، یعنی آپ ایک تو ہدایت کا نور ہیں، دوسرا ’’ نُوْرٌ مِنَ اللهِ ‘‘ یعنی اﷲ کی طرف سے آنے والے نور ہیں جو اﷲ کی مخلوق ہیں نہ کہ ’’ نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللهِ ‘‘ یعنی اﷲ کے نور میں سے نور کا ایک ٹکڑا ہیں کہ اﷲ کا حصہ ہوں یا خود ہی اﷲ ہوں۔ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ انھوں نے مسیح علیہ السلام کو اﷲ کا بیٹا بنایا اور ان حضرات نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ کا ٹکڑا بنا دیا۔ سورۂ اخلاص اس گندے اور شرکیہ عقیدے کی خوب تردید کرتی ہے۔