بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ بڑا زبردست اور بڑی حکمتوں والا ہے
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا: یہ صاف و صریح دلیل ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ احادیث بخاری و مسلم سمیت حدیث کی اکثر کتابوں میں موجود ہیں۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی ابن مریم علیھما السلام : ۳۴۴۸۔ مسلم : ۱۵۵ ] ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول اور دوسری بہت سی باتوں کا ذکر ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ یہ تمام روایات ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ احادیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہیں، ان کے راویوں میں ابوہریرہ، عبد اﷲ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اﷲ بن عمرو بن عاص، مجمع بن جاریہ، ابو سریحہ اور حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی کیفیت اور جگہ کا بیان ہے۔ آپ دمشق میں منارۂ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہو گی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہو جائیں گے، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہو گا اور یا جوج ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہو گا، بالآخر آپ ہی کی بد دعا سے ان کی ہلاکت واقع ہو گی۔ مسیح علیہ السلام کا اپنے جسم کے ساتھ اٹھایا جانا، وہاں ان کا زندہ موجود ہونا، دوبارہ دنیا میں آ کر کئی سال رہنا اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مرنا امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے، جس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((اِتَّفَقَ أَصْحَابُ الْأَخْبَارِ وَالتَّفْسِيْرِ عَلٰي أَنَّ عِيْسٰي رُفِعَ بِبَدَنِهٖ)) [التلخیص الحبیر ] ’’ تمام اصحاب تفسیر اور ائمۂ حدیث اس پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے بدن سمیت آسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔‘‘ لہٰذا حیاتِ مسیح کے انکار سے قرآن وحدیث کا انکار لازم آتا ہے جو سراسر گمراہی ہے۔ ”عَزِيْزًا حَكِيْمًا“ کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا عام فوت ہونے والوں کی طرح نہیں تھا۔