وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا
اور انہوں نے کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا، حالانکہ ان لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا اور نہ سولی پر چرھایا، بلکہ انہیں شبہ میں ڈال دیا گیا، اور بے شک جن لوگوں نے عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیا، وہ ان کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں، وہ لوگ ان کے متعلق سوائے وہم و گمان کی پیروی کے کوئی صحیح علم نہیں رکھتے، اور انہوں نے یقیناً قتل نہیں کیا
1۔ وَقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ : یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہود خود مسیح علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کر کے اپنے گمان میں انھیں قتل کرنے کا دعویٰ اور اس پر فخر کر رہے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مفسرین نے اس کے چند جواب دیے ہیں، پہلا یہ کہ وہ جو اپنے آپ کو ’’رسول اﷲ ‘‘ سمجھتا تھا، ہم نے اسے قتل کر دیا۔ دوسرا یہ کہ وہ بطور طنز انھیں ’’رسول اﷲ ‘‘ کہہ رہے تھے۔ تیسرا یہ کہ یہودیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کو بطور فخر ذکر کرنے پر اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے اکرام اور شرف کے اظہار کے لیے اپنے پاس سے لفظ ’’رسول اﷲ‘‘ کا اضافہ کر دیا کہ ان ظالموں نے کتنی بڑی ہستی کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ چوتھا یہ کہ یہودیوں کو نہ مریم علیھا اسلام کے پاکباز ہونے میں کوئی شک تھا، نہ عیسیٰ علیہ السلام کے رسول ہونے میں، کیونکہ پیدائش کے دن ہی بطور معجزہ اﷲ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کی زبانی تمام یہودیوں کے سامنے مریم علیھا السلام کی پاکبازی اور مسیح علیہ السلام کی رسالت ثابت فرما دی تھی، مگر قوم یہود کو جب مسیح علیہ السلام نے ان کے کفر و شرک، ریا کاری اور سود خوری پر ٹوکا تو وہ ان کی جان کے درپے ہو گئے اور گناہوں نے ان کے دل اس طرح مسخ کر دیے تھے کہ جس عظیم خاتون کو وہ تیس سال تک پاکباز سمجھتے رہے اس پر زنا کی تہمت لگا دی اور جسے دل سے رسول مانتے رہے گناہوں سے ٹوکنے پر اسے قتل کرنے کے درپے ہو گئے، حتیٰ کہ اپنے خیال میں قتل میں کامیاب ہو گئے اور اس پر فخر بھی کرنے لگے۔ انسانی طبائع جب مسخ ہوتی ہیں تو ان کی شقاوت کہاں تک پہنچ جاتی ہے، یہ اس کی مثال ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی رسولوں کو قتل کر چکے تھے۔ 2۔ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ: قرآن پاک نے یہودیوں کے دعویٰ کی صاف نفی کی اور فرمایا کہ نہ انھوں نے مسیح علیہ السلام کو قتل کیا اور نہ سولی دی، بلکہ ان کے لیے کسی اور آدمی کو مسیح علیہ السلام کی شبیہ (ان جیسا) بنا دیا گیا۔ وہ اسے سولی دے کر سمجھتے رہے کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا۔ یہ آدمی کون تھا اور کیسے شبیہ بنایا گیا، قرآن مجید یا حدیث رسول میں اس کی تفصیل بیان نہیں ہوئی، ہاں اگلی آیت میں آ رہا ہے کہ (عیسیٰ علیہ السلام کو نہ انھوں نے قتل کیا نہ سولی دیا بلکہ) اﷲ تعالیٰ نے انھیں اپنی طرف اٹھا لیا۔عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ بنائے جانے کی کیفیت کی ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ امام ابن کثیر اور ابن جریر نے بیان فرمائی ہے کہ جب یہودی مسیح علیہ السلام کو پکڑنے کے لیے گئے تو آپ نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون شخص اس بات پر راضی ہے کہ اسے میرا شبیہ بنا دیا جائے؟ ایک حواری اس پر راضی ہو گیا، چنانچہ مسیح علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھا لیا اور اس نوجوان کو مسیح علیہ السلام کی شکل و صورت میں تبدیل کر دیا گیا، یہودی آئے اور اس نوجوان کو سولی دے دی۔ 3۔ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ: عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل کو قتل کرنے کے بعد وہ لوگ خود تردد میں پڑ گئے کہ جسے ہم نے سولی دی ہے، کون ہے! بعض نے کہا، مسیح ہی قتل ہوئے ہیں اور بعض نے کہا کہ یہ مسیح تو نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ خود انھیں بھی یقین نہ ہو سکا کہ واقعی ہم نے انھی کو صلیب پر چڑھایا ہے، بس ایک گمان کی پیروی کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔ یقینی علم تو بہت دور ہے، خود وہ بھی اختلاف کا شکار ہیں اور شک میں مبتلا ہیں کہ کون قتل ہوا۔ یہ اختلاف یہود میں بھی تھا اور نصاریٰ کے فرقوں میں بھی ہے، جن میں سے بعض کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ناسوت (انسانی جسم) کو سولی دی گئی اور لاہوت (ان کا وہ حصہ جو خدا تھا) اوپر اٹھا لیا گیا۔ بعض دونوں کی سولی کے قائل ہیں وغیرہ، قرآن مجید نے ان سب کو جھوٹا قرار دیا۔