فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
(ان کے ساتھ ایسا برتاؤ اس لیے ہوا کہ) انہوں نے (147) میثاق کو توڑا، اور اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، اور انبیاء کو ناحق قتل کیا، اور کہا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ برائے نام ہی ایمان لاتے ہیں
1۔ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ : اس میں ’’مَا‘‘ تاکید کے لیے بڑھایا گیا ہے، یعنی ان کے اپنے پختہ عہد کو توڑنے ہی کی وجہ سے۔ یہاں کچھ الفاظ محذوف ہیں جو آیت پڑھنے والے کی سمجھ پر چھوڑ دیے گئے ہیں، چنانچہ اکثر مفسرین نے تو لکھا ہے کہ وہ الفاظ ہیں : ”لَعَنَّاهُمْ“ یعنی ہم نے ان پر لعنت کی، اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ ﴾ [ المائدۃ : ۱۳ ] ’’ان کے اپنے پختہ عہد کو توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی‘‘ اور بعض نے کہا کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے بات کو عام رکھا ہے اسے عام رکھنا ہی بہتر ہے یعنی ان کے عہد کو توڑنے ہی کی وجہ سے ”فَعَلْنَا بِهِمْ مَّا فَعَلْنَا“ (ہم نے ان کے ساتھ کیا جو کیا) یعنی جو ہم نے ان کے ساتھ کیا وہ تمھارے اندازے سے باہر ہے۔ 2۔ ”وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَآءَ۠ بِغَيْرِ حَقٍّ“ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۶۱) اور ”غُلْفٌ“ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۸۸)۔ 3۔ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا: یعنی بہت کم لوگ، جیسے عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے چند ساتھی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”قَلِيْلًا“ مصدر محذوف کی صفت ہو یعنی ”اِيْمَانًا قَلِيْلاً“ (وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر تھوڑا) یعنی صرف موسیٰ علیہ السلام اور تورات پر۔ یہ ان کے گمان کے اعتبار سے فرمایا، ورنہ ایک نبی کو بھی جھٹلایا تو گویا سب کو جھٹلا دیا۔ (رازی)