بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتِ اسلام دینے کے بعد آپ پر بہت مشکل حالات گزرے، سب لوگ دشمن بن گئے، ہر طرف مخالفت، مالی پریشانیاں الگ، ایمان لانے والے بالکل تھوڑے سے، مزید یہ کہ نرینہ اولاد جو ہوئی وہ فوت ہو گئی، اس پر دشمن کا خوش ہونا اور آپ کا غمگین اور پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سورۂ ضحی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4) وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى﴾ [ الضحی : ۴، ۵ ] (اور یقیناً پیچھے آنے والی حالت تیرے لیے پہلی سے بہتر ہے اور عنقریب تیرا رب تجھے ضرور اتنا عطا کرے گا کہ تو خوش ہو جائے گا) اور سورۂ انشراح میں فرمایا : ﴿ وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ [ الانشراح : ۴ ] (اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا) اسی طرح اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ فرما کر آپ کو تسلی دی ہے۔