أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ
لوگو ! تمہیں کثرت کی چاہت (١) نے اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے
1۔ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ: ’’أَلْهٰي يُلْهِيْ‘‘ ’’ لَهْوٌ‘‘سے ہے، جس کا معنی ہے ’’کسی چیز کے ساتھ اتنا لگاؤ اور دلچسپی جو اسے اہم چیزوں سے غافل کر دے۔‘‘’’ الَّكَاثُرُ‘‘ ’’كَثْرَةٌ‘‘سے باب تفاعل کا مصدر ہے، جس میں تشارک کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش۔ مال و اولاد اور جاہ و شرف، الغرض دنیا کی ہر چیز دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص اور پھر حاصل ہو جانے پر دوسروں پر فخر کرنا۔ 2۔ اس حرص کی حد کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوْ كَانَ لاِبْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَّالٍ لاَبْتَغٰي ثَالِثًا، وَلاَ يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ، وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ تَابَ )) [ بخاري، الرقاق، باب ما یتقی من فتنۃ المال: ۶۴۳۶ ] ’’اگر ابن آدم کے پاس مال کی بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی تلاش کرے گا اور آدم کے بیٹے کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھرتی اور اللہ اس کی طرف پلٹ آتا ہے جو واپس پلٹ آئے۔‘‘ سب سے زیادہ نقصان دہ حرص دو چیزوں کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِيْ غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِيْنِهِ )) [ ترمذي، الزھد، باب حدیث ما ذئبان جائعان....: ۲۳۷۶، وصححہ الألباني ] ’’دو بھوکے بھیڑیے جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ انھیں اتنا خراب نہیں کرتے جتنا آدمی کے مال اور شرف ( اونچا ہونے) کی حرص اس کے دین کو خراب کرتی ہے۔‘‘ 3۔ کس چیز سے غافل کر دیا؟ اللہ کے احکام سے، اس کے دین سے اور آخرت سے۔