سورة البينة - آیت 4

وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اہل کتاب (٢) ٹولیوں میں نہیں بٹے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس کھلی دلیل آگئی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ....: اس آیت میں اہلِ کتاب کے ایک جرم کا ذکر فرمایا، مشرکین کا نام نہیں لیا، کیونکہ جب پڑھے لکھوں کا یہ حال ہے تو جاہل مشرکین کی ضد اور عناد کا اندازہ خود کرلیں۔ اہل کتاب کا یہ جرم ان کا باہمی تفرقہ تھا اور اس جرم کا ارتکاب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی کیا اور آپ کی آمد پر بھی ۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے وہ بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ اس آیت میں وضاحت فرمائی کہ ان کے الگ الگ بہتر (۷۲) فرقے بننے کی وجہ یہ نہ تھی کہ انھیں اللہ کے حکم کا علم نہ تھا، نہیں! بلکہ ’’ الْبَيِّنَةُ ‘‘ (کھلی دلیل اور واضح حکم) موجود ہونے کے باوجو د باہمی ضد اور عناد کی وجہ سے کسی نے احبار و رہبان میں سے کسی ایک کے اقوال کو حجت مان کر اس کے نام پر فرقہ بنا لیا اور کسی نے دوسرے کے نام پر ۔ یہی حال مسلمانوں کا ہوا، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تَفَرَّقَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰی إِحْدٰی وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَالنَّصَارٰی مِثْلَ ذٰلِكَ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلٰی ثَلاَثٍ وَّسَبْعِيْنَ فِرْقَةً)) [ترمذي، الإیمان، باب ما جاء في افتراق ھٰذہ الأمۃ : ۲۶۴۰، وقال ترمذي و الألباني حسن صحیح ] ’’یہود اکہتر (۷۱) یا بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے، نصرانیوں کا بھی یہی حال ہوا اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی۔‘‘ اس افتراق کا حل پہلے بھی یہ تھا اور اب بھی یہی ہے کہ تمام امت اللہ کے نازل کردہ احکام پر متفق ہو جائے ، علماء کے اقوال سے کتاب و سنت سمجھنے میں مدد لی جائے مگران میں سے کسی کے قول کو شرع سمجھ کر فرقہ نہ بنایا جائے، بلکہ جہاں اس کی بات وحی الٰہی کے خلاف ہو، خواہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، اسے یکسر ترک کر دیا جائے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد آپ پر اہلِ کتاب کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ ہرگز نہ تھی کہ انھیں آپ کے سچا ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ پہلی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح بشارت اور نشانیاں موجود ہونے کی وجہ سے وہ آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پہچانتے تھے، مگر محض حسد اور عناد کی وجہ سے آپ کے بارے میں جدا جدا ہوگئے، کوئی ایمان لے آیا اور کوئی کفر پر ڈٹا رہا۔ حسد اور عناد ایک تو یہ تھا کہ آپ بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل سے کیوں ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی مذہبی سرداری چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔