سورة العلق - آیت 19

كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ۩

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہرگز نہیں، آپ اس کی بات نہیں مانئے، اور اپنے رب کے سامنے سجدہ کیجیے، اور اس کا قرب حاصل کیجیے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ: فرمایا، وہ آپ کو نماز سے روکتا ہے تو آپ اس کا کہنا ہرگز نہ مانیں، بلکہ آپ نماز پڑھتے، سجدہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ)) [ مسلم، الصلاۃ، باب ما یقال في الرکوع والسجود؟ : ۴۸۲ ] ’’بندہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو، تو تم (سجدے میں) دعا زیادہ کیا کرو۔ ‘‘ صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر سجدہ کرتے تھے۔ [ دیکھیے مسلم، المساجد، باب سجود التلاوۃ : ۱۰۸ ؍۵۷۸] 2۔ اگرچہ ان آیات کا اوّلین مصداق ابو جہل ہے، مگر الفاظ عام ہونے کی وجہ سے ہر وہ شخص ان کا مصداق ہے جس میں یہ صفات پائی جائیں، خواہ کوئی ہو اور کسی زمانے کا ہو اور ہر مومن کو حکم ہے کہ ایسے سرکش آدمی کاکہنا نہ مانے اور اللہ کے سامنے سجدہ کرتا رہے اور اس کا قرب تلاش کرتا رہے۔