سورة العلق - آیت 15

كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہرگز نہیں، اگر وہ باز (٤) نہ آیا تو ہم اسے اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًۢا ....: ’’ لَمْ يَنْتَهِ‘‘ وہ باز نہ آيا ’’اِنْتَهٰي يَنْتَهِيْ اِنْتِهَاءً‘‘(افتعال)سے جحد معلوم ہے۔ ’’يَنْتَهِ ‘‘ اصل میں ’’يَنْتَهِيْ‘‘ تھا، حرف جزم ’’ لَمْ ‘‘ کی وجہ سے یاء گر گئی۔ ’’ لَنَسْفَعًا‘‘ اصل میں ’’لَنَسْفَعَنْ‘‘ ہے، جو ’’سَفَعَ يَسْفَعُ‘‘ (ف) (زور سے کھینچ کر گھسیٹنا) سے جمع متکلم مضارع معلوم بانون تاکید خفیفہ ہے۔ چونکہ وقف کی حالت میں نون تاکید خفیفہ ’’الف‘‘ کے ساتھ بدل جاتا ہے، جیسا کہ نون تنوین ’’الف‘‘ کے ساتھ بدل جاتا ہے، اس لیے نون تنوین ’’خَبِيْرًا ‘‘ اور ’’بَصِيْرًا‘‘ کی طرح اسے بھی ’’لَنَسْفَعَنْ‘‘ کے بجائے ’’ لَنَسْفَعًا ‘‘ کی صورت میں لکھا گیا ہے اور اس میں مصحف عثمان رضی اللہ عنہ کی پیروی کی گئی ہے۔ ’’ وَ لَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ ‘‘ بھی ایسے ہی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف کی آیت ( ۳۲) کی تفسیر۔ ’’اَلنَّاصِيَةُ ‘‘ سر کے اگلے حصے کے بالوں کو ’’ناصیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ الزَّبَانِيَةَ ‘‘ ’’ زِبْنِيَّةٌ ‘‘ کی جمع ہے۔ عرب پولیس کے سپاہی کو ’’زِبْنِيَّةٌ ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ’’زَبَنَ يَزْبِنُ زَبْنًا‘‘ (ض) سے مشتق ہے جس کا معنی ’’ہٹانا، دھکا دینا‘‘ ہے۔ چونکہ افسر جس سے ناراض ہو سپاہی اسے دھکے مار کر نکال دیتے ہیں، اس لیے انھیں ’’زبانیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں جہنم کے فرشتے مراد ہیں کہ اگر یہ باز نہ آیا تو وہ اسے دھکے دے کرنکال دیں گے، بلکہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ 2۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا : ’’کیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمھارے ہوتے ہوئے اپنا چہرہ زمین پر رکھتا ہے؟‘‘ کہا گیا: ’’ہاں!‘‘ ابوجہل نے کہا: ’’لات اور عزیٰ کی قسم! اگر میں نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند ڈالوں گا، یا اس کے چہرے کو مٹی سے لت پت کر دوں گا۔‘‘ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس کا ارادہ آپ کی گردن کو روندنے کا تھا، اچانک لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایڑیوں پر واپس پلٹ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں کے ساتھ کسی چیز سے بچ رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا: ’’ تجھے کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا : ’’میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق، بڑا ہولناک منظر اور پَر ہیں۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((لَوْ دَنَا مِنِّيْ لاَخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْوًا عُضْوًا)) [مسلم، صفات المنافقین، باب قولہ : ﴿إن الإنسان لیطغٰی....﴾ : ۲۷۹۷ ] ’’اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اسے ایک ایک عضو کر کے اچک لیتے۔‘‘