وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ
اور اس نے آپ کو فقیر و محتاج پایا تو آپ کو مالدار بنا دیا
وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰى: ’’عَالَ يَعِيْلُ عَيْلاً وَعَيْلَةً‘‘ (ض) فقیر ہونا۔ ’’ عَآىِٕلًا ‘‘ فقیر۔ سورۂ توبہ میں فرمایا: ﴿ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ [التوبۃ : ۲۸ ] ’’اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے، انھوں نے اپنی میراث میں ایک لونڈی ام ایمن کے علاوہ کوئی زیادہ مال نہیں چھوڑا۔ بچپن میں اپنے فقر کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمایا، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا بَعَثَ اللّٰهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَی الْغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ وَأَنْتَ؟ فَقَالَ نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلٰی قَرَارِيْطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ)) [ بخاري، الإجارۃ، باب رعی الغنم علی قراریط : ۲۲۶۲] ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں۔‘‘ آپ کے صحابہ نے کہا : ’’اور آپ نے بھی (چرائی ہیں)؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں انھیں مکہ والوں کے لیے چند قیراطوں پر چرایا کرتا تھا۔‘‘ ظاہر ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی یا ابو طالب کی بھیڑ بکریاں ہی ہوتیں تو آپ کو اہلِ مکہ کی بھیڑ بکریاں اجرت پر چرانے کی کیا ضرورت تھی۔ اتنے افلاس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح غنی کر دیا کہ مکہ کی سب سے مال دار خاتون خدیجہ رضی اللہ عنھا نے پہلے آپ کو تجارت میں شریک کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کر لیا اور اپنا تمام مال آپ کے حوالے کر دیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ آپ کے پاس بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر، بحرین اور یمن وغیرہ کی غنیمتوں اور خراج کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ مالی غنا تھا، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا قلبی غنا بھی عطا فرمایا تھا کہ آپ اس طرح بے دریغ خرچ کرتے تھے جیسے آپ کو فقر کا کوئی خوف ہی نہ ہو۔