وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
اور اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، اور وہ لوگ صرف اپنے آپ کو گمراہ کرتے ہیں، اور آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا پائیں گے، اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت اتاری ہے، اور جو آپ نہیں جانتے تھے وہ آپ کو سکھایا ہے، اور آپ پر اللہ کا فضل بڑا تھا
1۔ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ ....: اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت آپ پر یہ تھی کہ آپ کو وحی کے ذریعے سے اصل واقعہ کی حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ ورنہ وہ طائفہ جو بنو ابیرق کا حامی تھا، آپ کو قائل کر کے انھیں بری کرانے ہی والا تھا، اس کا نتیجہ صرف یہی نہ تھا کہ ایک مجرم بچ جاتا اور ایک بے گناہ مجرم بن جاتا، بلکہ اس کے نتائج بہت دور رس تھے، جس سے مسلمانوں کی ساکھ اور کردار مجروح ہو جاتا۔ فرمایا ایسے لوگ درحقیقت اپنی عاقبت برباد کر کے اپنا ہی نقصان کر رہے تھے، آپ کا محافظ خود اللہ تعالیٰ تھا، آپ کو وہ نہ دھوکا دے سکتے تھے نہ آپ کا کچھ نقصان کر سکتے تھے۔ 2۔ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ: یعنی آپ کو وحی کے ذریعے سے وہ کچھ سکھایا جو آپ جانتے نہ تھے، بلکہ جس کی آپ امید بھی نہ رکھتے تھے۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت (۴۸، ۴۹)، سورۂ قصص (۸۶)، سورۂ شوریٰ (۵۲) اور سورۂ ہود (۴۹) یہ ہے اللہ کا آپ پر فضل عظیم۔ بعض لوگ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں، حالانکہ یہی الفاظ اللہ نے ہر انسان کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں : ﴿ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴾ [ العلق : ۵ ] ’’اس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ پھر ہر انسان کا عالم الغیب ہونا بھی ثابت ہو جائے گا۔