سورة البروج - آیت 3

وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور قسم ہے شاہد و مشہود (یعنی جمعہ اور روز عرفہ) کی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ شَاهِدٍ وَّ مَشْهُوْدٍ: ’’ شَاهِدٍ ‘‘ حاضر ہونے والا۔ ’’ مَشْهُوْدٍ ‘‘ جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ لفظوں کے لحاظ سے اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو کہیں حاضر ہو سکتے ہیں اور مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جن کا مشاہدہ ہو سکتا ہے یا جن کے پاس کوئی حاضر ہو سکتا ہے۔ اہلِ علم نے ’’ شَاهِدٍ ‘‘ اور ’’ مَشْهُوْدٍ ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے جس چیز کو زیادہ اہم یا معروف یا مناسب سمجھا اس کے ساتھ تفسیر کردی۔ چنانچہ بہت سے صحابہ و تابعین نے ’’ شَاهِدٍ ‘‘ سے مراد یوم جمعہ اور ’’ مَشْهُوْدٍ ‘‘ سے مراد یوم عرفہ لیا ہے۔ الفاظ کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ فرد ہے جو کہیں حاضر ہوتاہے اور حاضری کا ہر وہ موقع ہے جس میں کوئی فرد حاضر ہوتا ہے۔