وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت (105) کرتا ہے، وہ زمین میں بہت سی پناہ کی جگہیں اور کشادگی پاتا ہے، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی نیت سے نکلتا ہے، پھر اس کی موت آجاتی ہے، تو اس کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوجاتا ہے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے
1۔ مُرٰغَمًا: یہ اسم ظرف ہے، یعنی ’’مَوْضِعُ رَغْمِ الْاَعْدَاءِ‘‘ دشمنوں کی ناک خاک آلود ہونے کی جگہ، جس سے دشمن ذلیل ہوں۔ ”مُرٰغَمًا“ کے معنی جگہ، جائے قیام اور جائے پناہ بھی آتے ہیں۔ ہجرت کر کے نکلنے کے بعد حاصل ہونے والی جائے قیام کو ”مُرٰغَمًا“ اس لیے فرمایا کہ وہ تمام دشمنوں کی ناک کو خاک آلود کر دیتی ہے۔ (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دوسرے مقامات پر دارالکفرمیں زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے، لیکن یہ آیت عام ہے اور متعدد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے گا اور اس کی طرف سے بڑی وسعت بھی ملے گی۔ 2۔ وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ: اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو خلوص نیت سے ہجرت کرتے ہیں مگر راستے میں ان کا وقت آخر آجاتا ہے تو ان کا اجر اللہ پر ثابت ہو جاتا ہے، کیونکہ اصل مدار نیت پر ہے، جیسا کہ مشہور حدیث ہے: (( إِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ )) [بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی: ۱] ’’تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ چنانچہ خالد بن حزام رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے نکلے، انھیں ایک سانپ نے ڈس لیا تو ان کے بارے میں یہ آیت اتری :﴿ وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ ﴾ [ ابن أبی حاتم :4؍328، ح : ۵۸۸۸، حسن ] سو آدمیوں کو قتل کر کے ہجرت کرنے والے شخص کا قصہ بھی اس کی دلیل ہے۔ 3۔ ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دار السلام کی طرف منتقل ہونا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تا قیامت باقی ہے۔ جس ہجرت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ] (فتح کے بعد ہجرت نہیں) فرما کر منسوخ فرمایا ہے، وہ مکہ یا کسی بھی جگہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی۔ اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنی چاہیے، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔‘‘ علی ہذا القیاس جس علاقے میں حلال روزی نہ ملتی ہو، یا دین میں فتنے کا خوف ہو وہاں سے بھی ہجرت کرنی چاہیے۔ (قرطبی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنَا بَرِيْءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيْمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِيْنَ)) ’’میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہو۔‘‘ [ أبو داؤد، الجہاد، باب النھی عن قتل من اعتصم بالسجود : ۲۶۴۵ ]