لِيَوْمٍ عَظِيمٍ
یہ ایک عظیم دن کے لئے
لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ ....: ’’ایک بڑے دن کے لیے‘‘ بڑا دن اس لیے کہ اس کی مقدار ہی پچاس ہزار سال ہے۔ (دیکھیے معارج : ۴) اور اس لیے بھی بڑا ہے کہ پیشی عام عدالت میں بھی گھبراہٹ کا باعث ہوتی ہے، اس دن تو رب العالمین کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا : (( تُدْنَی الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَكُوْنَ مِنْهُ كَمِقْدَارِ مِيْلٍ فَيَكُوْنُ النَّاسُ عَلٰی قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَّكُوْنُ إِلٰی كَعْبَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَّكُوْنُ إِلٰی رُكْبَتَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَّكُوْنُ إِلٰی حَقْوَيْهِ وَ مِنْهُمْ مَنْ يُّلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا قَالَ وَ أَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلٰی فِيْهِ )) [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب في صفۃ یوم القیامۃ....:۲۸۶۴ ] ’’قیامت کے دن سورج مخلوق کے قریب ہو جائے گا یہاں تک کہ ان سے ایک میل کی مقدار کی طرح ہوگا۔ تو لوگ اپنے اعمال کے اندازے کے مطابق پسینے میں ہوں گے، جو ان میں سے بعض کے ٹخنوں تک ہوگا، بعض کے گھٹنوں تک، بعض کی کمر تک اور بعض کو پسینا لگام کی طرح لگام ڈال لے گا۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنھما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کانوں کے نصف تک پسینے کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت پڑھی : ﴿ يَوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ ’’جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿یوم یقوم الناس....﴾ : ۴۹۳۸ ]