وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ
اور جب سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی
وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ : ’’سَجَرَ التَّنُّوْرَ‘‘ اس نے تنور جلایا۔ ’’سَجَّرَ‘‘ میں مبالغہ ہے، خوب بھڑکایا۔ سمندروں کے بھڑکائے جانے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زمین کے نیچے جو بے پناہ حرارت اور آگ ہے، جو آتش فشاں پہاڑوں کے بیدار ہونے کی صورت میں کبھی کبھی ظاہر ہوتی رہتی ہے، وہ اللہ کے حکم سے سمندروں کو بھڑکا کر انھیں بھاپ بنا کر اڑا دے گی۔ پھر پہاڑوں کی بلندی اور سمندروں کی گہرائی ختم ہوکر زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن دو گیسوں کا مرکب ہے، جن میں سے ایک جلانے والی اور دوسری جلنے والی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عجیب قدرت ہے کہ ان دونوں کو ملا کر آگ بجھانے والا پانی بنا دیا ہے۔ قیامت کے وقت اللہ کے حکم سے ان دونوں کا ملاپ ختم ہو جائے گا اور وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ کر بھڑکانے اور بھڑکنے لگیں گی، جس سے سمندروں کا یہ بے حساب پانی چشم زدن میں اڑ جائے گا۔ بہرحال اللہ کا حکم ہو گا تو سمندر آگ سے بھڑکنے لگیں گے۔