وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا
وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ....: یہاں ایک سوال ہے کہ اس جگہ آسمان بنانے کے بعد زمین بچھانے کا ذکر فرمایا ہے، جب کہ سورۂ بقرہ کی آیت (۲۹) اور حم سجدہ کی آیات (۹ تا ۱۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے زمین پیدا کی گئی پھر آسمان، ان دونوں کے درمیان تطبیق کیا ہوگی؟ اہل علم نے اس کے متعدد جوابات ذکر فرمائے ہیں : (1) بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ پہلے زمین بنی پھر آسمان، البتہ زمین کو بچھانے، اس کا پانی اور چارہ نکالنے اور اس میں پہاڑ گاڑنے کا کام بعد میں ہوا ۔ گویا زمین کی خلق (پیدائش ) آسمان سے پہلے ہے، البتہ ’’دَحْوٌ‘‘ (بچھانا) بعد میں ہے۔ طبری نے یہ تفسیر علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل کی ہے اور اسے ترجیح دی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: (( قَوْلُهُ حَيْثُ ذَكَرَ خَلْقَ الْأَرْضِ قَبْلَ السَّمَاءِ، ثُمَّ ذَكَرَ السَّمَاءِ قَبْلَ الْأَرْضِ، وَذٰلِكَ أَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ الْأَرْضَ بِأَقْوَاتِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَدْحُوَهَا قَبْلَ السَّمَاءِ، ثُمَّ اسْتَوٰی إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ، ثُمَّ دَحَا الْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ ، فَذٰلِكَ قَوْلُهُ: ﴿وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ﴾)) [ طبري : ۲۴ ؍۹۲، ح : ۳۶۶۳۲ ] ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس میں موجود روزیوں سمیت اسے بچھائے بغیر آسمان سے پہلے پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انھیں درست کر کے سات آسمان بنا دیا، پھر زمین کو اس کے بعد بچھا دیا، یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب ہے : ﴿ وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا﴾ [النازعات : ۳۰ ] ’’اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا۔‘‘ ابن کثیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ‘‘ کی تفسیر بعد والی آیات : ﴿ اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰىهَا ....﴾ کے ساتھ فرمائی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ زمین میں پہلے پیدا کر دیا تھا، مگر انھیں آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد زمین سے نکالا۔ (2) بعض مفسرین نے سورۂ نازعات کی زیر تفسیر آیات اور حم سجدہ کی آیات (۹ تا ۱۲) کو ملا کر خلاصہ یوں نکالا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان پیدا کیا، اس حال میں کہ وہ دھوئیں کی مانند تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا، پھر اس پر پہاڑوں کو رکھ دیا، پھر زمین میں سبزیاں اور درخت وغیرہ کی پیدائش کا اندازہ مقرر کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان کو، جواب تک دھوئیں کی شکل میں تھا، سات آسمانوں میں تبدیل کیا اور آسمان کی چھت کو بلند کیا، پھر زمین کو بچھا دیا، اس میں سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا۔‘‘ (تفسیر قرآن عزیز سورۃ النازعات) (3) تیسری تطبیق یہ ہے کہ یہاں سورئہ نازعات میں زمین و آسمان پیدا کرنے کی ترتیب زمانی بیان کرنا مقصود ہی نہیں، وہ تو وہی ہے جو سورئہ بقرہ اورسورئہ حم سجدہ میں ہے، بلکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر پہلے آسمان کو ذکر کیا گیا ہے پھر زمین کو۔ واضح رہے کہ بعد کا لفظ ہر جگہ زمانے کی ترتیب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ترتیب ذکری کے لیے ہوتا ہے، یعنی موقع کی مناسبت سے زیادہ اہم چیز پہلے ذکر ہوتی ہے اور دوسری بعد میں، جیساکہ فرمایا: ﴿عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ ﴾ [ القلم : ۱۳] ’’سخت مزاج اس کے بعد بدنام۔‘‘ ایسے موقع پر زمانی ترتیب کچھ بھی ہو لفظ بعد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلی چیز کے بعد اس کی خبر دی جا رہی ہے، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ایسے موقع پر عموماً بعد کا معنی ’’مع‘‘ (ساتھ) ہوتا ہے، یعنی سخت مزاج ہونے کے ساتھ وہ بدنام بھی ہے۔ اسی طرح سورۂ بلد کی آیات (۱۱ تا ۱۷) کی تفسیر بھی دیکھ لیں، جن میں ’’ فَكُّ رَقَبَةٍ ....‘‘ کے بعد فرمایا : ﴿ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....﴾ [یہاں بھی ’’ ثُمَّ ‘‘ ترتیب زمانی کے لیے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ گردن چھڑانے اور کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ یہ تطبیق تقریباً تمام مفسرین نے ذکر کی ہے اور سب سے بہتر ہے، کیونکہ پہلی دونوں تطبیقوں میں چھ دن میں زمین و آسمان کی پیدائش کی تفصیل اور ترتیب پوری طرح واضح نہیں ہوتی اور نہ اصل اشکال دور ہوتا ہے ۔