أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
کیا وہ قرآن (89) میں غور نہیں کرتے ہیں، اور اگر یہ غیر اللہ کے پاس سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ: منافقین کے مکر و فریب اور مذموم خصائل کے ضمن میں قرآن کی حقانیت کے اثبات کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ منافقین یہ سب مکر و فریب اور سازشیں اس بنا پر کر رہے تھے کہ وہ آپ کو سچا نبی نہیں سمجھتے تھے، لہٰذا یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقِ نبوت پر بطور دلیل کے قرآن کو پیش کیا اور قرآن حکیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق نبوت کی تین وجہوں سے دلیل بنتا ہے، اول اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے۔ (دیکھیے بقرہ : ۲۳) دوم امور غیب کی خبروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اور سوم اختلاف و تناقض سے پاک اور مبرا ہونے کی بنا پر۔ یہاں اسی تیسری چیز کو بیان فرمایا ہے۔ (رازی) مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک انسان برس ہا برس تک مختلف حالتوں میں مختلف موضوعات پر، خصوصاً امورِ غیب سے متعلق اس قدر تفصیل سے گفتگو کرتا رہے اور اس کی ایک بات بھی دوسری سے متصادم نہ ہو۔ یہ خصوصیت صرف قرآن میں پائی جاتی ہے، جو غور و فکر کرنے والے کے لیے اس کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔ (شوکانی) اختلاف سے پاک ہونا درجۂ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی فصیح و بلیغ کیوں نہ ہو، جب اتنی بڑی کتاب لکھے گا تو اس کے کلام میں قدرے تفاوت ضرور ہو گا اور ساری کتاب بلاغت میں یکساں مرتبہ کی نہیں ہو گی۔ پھر یہ منافقین خفیہ طور پر سازشیں کرتے رہتے ہیں اور وحی کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بھید من و عن بتا دیے جاتے ہیں اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی راز کے افشا کرنے میں قرآن نے تھوڑی بہت بھی غلطی کی ہو اور یہی اس کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔ (رازی) معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں تدبر کے بغیر انسان کے شکوک و شبہات دور نہیں ہو سکتے اور نہ قرآن صحیح طور پر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ قرآنِ کریم اگر غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں اختلافِ کثیر ہوتا، اب یہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اختلافِ کثیر کجا، سرے سے اس میں اختلاف ہے ہی نہیں۔