فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ
جب ستارے (٣) مٹا دئیے جائیں گے
فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ ....: ’’ اُقِّتَتْ ‘‘ اصل میں ’’وُقِّتَتْ‘‘ تھا۔ ’’اَلتَّوْقِيْتُ‘‘ وقت مقرر کرنا۔ یہاں سے اس دن کی کچھ نشانیاں بیان فرمائیں کہ اس دن تاروں کی روشنی جاتی رہے گی۔ (دیکھیے تکویر : ۲۔ انفطار : ۲) آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے ہی دروازے نمودار ہو جائیں گے۔ (دیکھیے انشقاق : ۱۔ انفطار : ۱۔ نبا : 19،18۔ فرقان : ۲۵) اور پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : ۱۰۵۔ واقعہ : ۱تا۶۔ حاقہ : ۱۳تا۱۵۔ مزمل : ۱۴۔ قارعہ : ۵) اور وہ وقت آجائے گا جو رسولوں کے ساتھ مقرر کیا گیا تھاکہ ایک دن انھیں جمع کیا جائے گا اور وہ اپنی اپنی امت کو دین حق پہنچانے کی شہادت دیں گے۔ (دیکھیے نساء : ۴۱۔ مائدہ : ۱۰۹) یہ سب چیزیں کس دن کے لیے مؤخر کی گئی ہیں؟ فیصلے کے دن کے لیے۔ پھر اس دن کی عظمت و ہیبت بیان کرنے کے لیے فرمایا : ’’اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟‘‘ مطلب یہ ہے کہ کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ وہ دن کتنا عظیم ہے کہ آپ کو بتا سکے۔ ہاں، اللہ تعالیٰ خود کچھ بتادے تو الگ بات ہے۔ مختصر یہ کہ وہ دن اتنا خوف ناک ہے کہ جھٹلانے والوں کے لیے اس دن’’ وَيْلٌ ‘‘ یعنی خرابی اور بربادی ہے۔ اس سورت میں ’’ وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ ‘‘ دس مرتبہ آیا ہے، تکرار سے مقصود اس دن سے زیادہ سے زیادہ ڈرانا ہے۔