وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا
اور ان کے سائے ان پر جھکے ہوں گے اور اس کے پھل ان کے بالکل قریب کردیے جائیں گے۔
وَ دَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلٰلُهَا ....: ’’ دَانِيَةً ‘‘ ’’دَنَا يَدْنُوْ‘‘ (ن) سے اسم فاعل ہے، قریب۔ ’’ ذُلِّلَتْ ‘‘ تابع کیے جائیں گے، جھکا دیے جائیں گے۔ ’’ تَذْلِيْلًا ‘‘ تاکید ہے، خوب جھکانا۔ ’’قُطُوْفٌ‘‘ ’’قِطْفٌ‘‘ کی جمع ہے، خوشہ، چنا ہوا پھل، یعنی جنت کے درختوں کے سائے نہایت گھنے اور جھکے ہوئے ہوں گے اور اس کے پھلوں کے خوشے جنتیوں کے تابع اور ان کی دسترس میں ہوں گے جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے جس طرح چاہیں گے توڑ سکیں گے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَّسِيْرُ الرَّاكِبُ فِيْ ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ يَقْطَعُهَا )) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ....: ۳۲۵۱] ’’جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا مگر اسے طے نہیں کر سکے گا۔‘‘