يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت (66) کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہوجائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو (67) اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے
1۔ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو، چاہے فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انھیں اپنی، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حکام و امراء کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اختیار والے بادشاہ، قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے، جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف حکم نہ کرے، اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانیے۔‘‘ (موضح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوْفِ )) ’’اطاعت صرف نیکی کے امور میں ہے۔‘‘ [ بخاری، الأحکام، باب السمع والطاعۃ للإمام....: ۷۱۴۵، عن علی رضی اللّٰہ عنہ ] عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہر مسلمان کو لازم ہے کہ وہ ہر کام میں، خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند، سمع و طاعت بجا لائے، بشرطیکہ اسے کسی معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو اور اگر اسے کسی معصیت کے کام کا حکم دیا گیا ہو تو اس میں سمع و طاعت نہیں۔ ‘‘ [ بخاری، الفتن، باب السمع والطاعۃ للإمام : ۷۱۴۴ ] 2۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ: اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے کہ باہمی نزاع اور جھگڑے کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اطاعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد آپ کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں اصل اور مستقل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اس آیت سے مقلدین تقلید کے واجب ہونے پر دلیل لیتے ہیں لیکن یہ دلیل نہیں ہو سکتی، کیونکہ ’’اولی الامر ‘‘ سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں۔ (دیکھیے فوائد موضح) اگر بعض اہل علم کے مطابق اس سے علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے، دوسرے بہ فرض تسلیم عالم کی تقلید کا حکم ہے تو وہ اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو(اگرچہ یہ تقلید نہیں بلکہ قرآن و حدیث پر عمل ہے) پھر خود چاروں اماموں نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ ائمہ کے اتباع میں جھگڑا ہو تو اللہ اور رسول کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔‘‘ (ترجمان) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ، تابعین یا ائمہ میں اگر کسی مسئلے پر نزاع ہو تو کسی کا قول بھی حجت نہیں، بلکہ وہاں صرف قرآن و حدیث پر عمل ہو گا۔ 3۔ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلًا: اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں اور ایک نے کہا، چل شرع کی طرف رجوع کریں، دوسرے نے کہا، میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بے شک کافر ہوا۔ (موضح)