يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
اے چادر (١) اوڑھنے والے
1۔ يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ: ’’ الْمُزَّمِّلُ ‘‘ اصل میں ’’اَلْمُتَزَمِّلُ‘‘ تھا، تاء کو زاء سے بدل کر زاء میں ادغام کر دیا، کپڑے میں لپٹنے والا۔ یہ باب لازم ہے۔ 2۔ يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ : ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے!‘‘ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ان آیات کے اترنے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے میں لپٹ کر لیٹے ہوئے تھے۔ اس خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت لطف و کرم اور محبت کا اظہار ہے، کیونکہ اہلِ عرب کا طریقہ ہے کہ وہ مخاطب سے نرمی اور محبت سے بات کرنا چاہتے ہوں تو ایسے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں جو مخاطب کی اس وقت کی حالت پر دلالت کر رہا ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو مسجد میں زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا : (( قُمْ أَبَا تُرَابٍ! )) [ بخاري، الصلاۃ، باب نوم الرجال في المسجد : ۴۴۱ ] ’’مٹی والے! اٹھ کھڑا ہو۔‘‘ 3۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چادر میں لیٹنے کی وجہ کیا تھی؟ اس میں تین قول ہیں، پہلا یہ کہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ پہلی وحی : ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ﴾ کے نزول کے موقع پر جب فرشتے نے آپ کو تین مرتبہ زور سے دبایا تو آپ گھر میں خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور فرمایا : (( زَمِّلُوْنِيْ زَمِّلُوْنِيْ )) [ بخاري، الوحي، باب کیف کان بدء الوحي : ۳ ] ’’مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔‘‘ اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اتری تو آپ نے اس کے متعلق بیان فرمایا : ’’میں چلا جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ میں اس سے ڈر گیا اور واپس آکر کہا : (( زَمِّلُوْنِيْ زَمِّلُوْنِيْ ))تو اللہ عزوجل نے ’’ يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ سے لے کر ’’ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ ‘‘ تک آیات اتاریں۔‘‘ [بخاري، الوحي، باب کیف کان بدء الوحي : ۴ ] ان دونوں موقعوں پر ’’زَمِّلُوْنِيْ‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرشتے کی ملاقات اور وحی کے اترنے سے جو رعب اور خوف طاری ہوتا تھا اس کی وجہ سے آپ کپڑا لپیٹ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے اس بار گراں کو اٹھانے کے لیے تیار کرنے کی خاطر آپ کو قیام اللیل کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام اللیل کے ساتھ آپ کو وحی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، چنانچہ بعد میں وحی تسلسل اور کثرت سے اترنے لگی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ’’ اے چادر میں لپٹ کر سونے والے! سستی اور سونے کا وقت گیا، رات کو قیام کر …۔‘‘ تیسرا قول یہ ہے کہ قریش مکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی ایسا نام طے کرنے لگے جسے سن کر لوگ آپ کے پاس آنے سے باز رہیں۔ کسی نے کہا کاہن ہے، کچھ دوسرے کہنے لگے کاہن نہیں ہے۔ کسی نے دیوانہ کہا، اس کی بھی تردید ہو گئی۔ کچھ بولے جادو گر ہے، دوسروں نے کہا جادوگر نہیں ہے۔ غرض مشرکین اس قسم کی باتیں کرکے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ کو بہت صدمہ ہوا اور اس پریشانی اور غم کی حالت میں آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئے۔ جبریل علیہ السلام آئے اور فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ﴾ ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے!‘‘ اور فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴾ ’’اے کمبل میں لپٹنے والے!‘‘ مقصد یہ ہے کہ آپ ان کی باتوں سے بد دل اور رنجیدہ ہو کر چادر لپیٹ کر نہ لیٹ جائیں بلکہ رات کو قیام کریں، اس سے آپ میں یہ بارگراں اٹھانے کی قوت پیدا ہو گی، ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور ان سے اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کریں۔ ابن کثیر نے یہ قول جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کی روایت سے مسند بزار سے نقل کیا ہے، مگر اس کی سند میں ایک راوی معلی بن عبدالرحمن ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے : ’’مُتَّهَمٌ بِالْوَضْعِ وَ قَدْ رُمِيَ بِالرَّفْضِ‘‘ ’’اس پر احادیث گھڑنے کی تہمت ہے اور رافضیت کا الزام بھی ہے۔‘‘