إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (65) ان کے مالکوں تک پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے
1۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا: درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا، اب دوبارہ سلسلۂ احکام شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر ظلم وجور کرتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے، اس کا تعلق مذہب و دیانت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے، لیکن یہود حق کو چھپا کر علمی امانت میں خیانت کے مرتکب بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ امانت میں خیانت اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ’’مدعم‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے پالان اتار رہا تھا کہ اسے ایک اندھا تیر لگا جس نے اسے قتل کر دیا، لوگوں نے کہا، اسے جنت مبارک ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمتوں میں سے لی تھی، جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھیں، اس پرآگ بن کر شعلے مار رہی ہے۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ خیبر : ۴۲۳۴ ] شہادت سے اس گناہ کے معاف نہ ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کے حقوق ہیں۔ عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’شہید کے لیے ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب من قتل فی سبیل اللّٰہ … ۱۸۸۵ ] البتہ ایک حدیث میں ایک بشارت ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص لوگوں کے اموال لے اور ان کی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دے گا اور جو شخص لوگوں کے اموال لے اور انھیں تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تلف کرے گا۔‘‘ [ بخاری، الاستقراض، باب من أخذ أموال الناس… ۲۳۸۷ ] اس سے معلوم ہوا کہ اگر شہید ہونے والے کا ارادہ ادائیگی کا تھا تو اگر وارث ادا نہ کریں تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ادا کر دے گا، لیکن ظاہر ہے کہ خیانت والے کا تو یہ ارادہ ہوتا ہی نہیں۔ امانت میں لوگوں سے لی ہوئی امانتیں بھی شامل ہیں اور عہدوں اور مناصب کی تقسیم بھی، جب ذمہ دار شخص کو معلوم ہو کہ فلاں صاحب اس منصب کا اہل نہیں تو پھر اپنے ذاتی تعلق یا خاندانی یا کسی دنیوی مقصد کے لیے یا کوٹہ سسٹم کی وجہ سے اہل کو چھوڑ کر نااہل شخص کو وہ منصب دیا جائے تو یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ سورۂ احزاب (۷۲)، سورۂ مومنون (۸) اور سورۂ بقرہ (۲۸۳) میں بھی امانت داری کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ 2۔ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ: قرآن مجید میں کئی مقامات پر عدل کی تاکید فرمائی، خواہ وہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو، دیکھیے سورۂ نساء (۱۳۵) اور کسی دشمنی کی بنا پر عدل نہ کرنے سے بھی منع فرمایا۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۸)، سورۂ نحل (۹۰) اور سورۂ حجرات(۹) وہ سات خوش قسمت لوگ جنھیں روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کا سایہ ملے گا، ان میں پہلا شخص عادل حکمران ہو گا۔ [بخاری، الأذان، باب من جلس فی المسجد....: ۶۶۰ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک انصاف کرنے والے جو اپنے فیصلے میں، اپنے اہل و عیال میں اور رعایا میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمان عزوجل کے دائیں طرف ہوں گے اور رحمان کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔‘‘ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل…: ۱۸۲۷، عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہما ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یقینا اللہ تعالیٰ قاضی اور حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔‘‘ [ ابن ماجہ، الأحکام، باب التغلیظ فی الحیف والرشوۃ : ۲۳۱۲،عن عبد اللہ بن أوفٰی رضی اللّٰہ عنہ وصححہ الألبانی ]