وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا
اور کہا ہے کہ لوگو ! تم اپنے معبودوں (١١) کو ہرگز نہ چھوڑو، اور تم ” ود“ کو نہ چھوڑو، اور نہ ” سواع“ کو، اور نہ ” یغوث“ اور ” یعوق“ اور ” نسر“ کو
1۔ وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ ....: ساڑھے نو سو سال میں اللہ بہتر جانتا ہے کتنی ہی نسلیں ختم ہوئیں اور کتنی نئی پیدا ہوئیں، مگر ہر پہلا پچھلے کو جیتے جی اور مرتے وقت یہی تاکید کرتا رہا کہ دیکھنا! نوح کے کہنے پر وَدّ، سواع ، یغوث، یعوق اور نسر کی عبادت ہرگز ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ وہ پانچ بت تھے جن کی عبادت قومِ نوح کرتی تھی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: ’’یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ (بطور یادگار) جن مجلسوں میں وہ بیٹھتے تھے وہاں ان کے بت نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھ دو، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا تو اس وقت ان کی عبادت نہیں کی گئی، یہاں تک کہ جب وہ (بطور یاد گار بت نصب کرنے والے) فوت ہوگئے اور (کسی کو اس بات کا) علم نہ رہا تو ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔‘‘[بخاري، التفسیر، باب: ﴿ ودا ولا سواعا....﴾:۴۹۲۰] اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی کا اصل باعث اکابر کی محبت میں غلو اور ان کے مجسّمے بنا کر انھیں نصب کرنا تھا۔ شریعت میں تصویر کی حرمت کے دیگر اسباب کے علاوہ ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کی اسی روایت میں جو اوپر گزری ہے، مذکور ہے کہ یہی بت جو قوم نوح میں تھے بعد میں عرب کے اندر آگئے۔ ’’وَدّ‘‘ دومۃ الجندل میں کلب قبیلے کا بت تھا، ’’سواع‘‘ ہذیل کا تھا، ’’یغوث‘‘ مراد قبیلے کا پھر (اس کی شاخ) بنو غطیف کا تھا، جو سبا کے قریب وادیٔ جرف میں (آباد) تھے۔ ’’یعوق‘‘ ہمدان کا اور ’’نسر‘‘ حمیر کا تھا جو ذوالکلاع کی آل تھے۔ [بخاري، أیضًا ] یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے طوفان کے بعد جس میں تمام مشرک غرق کر دیے گئے، وہ بت کیسے باقی رہ گئے اور دوبارہ ان کی پرستش کیسے شروع ہو گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات جاننے کا شوق رکھتا ہے، چنانچہ علم تاریخ اسی شوق کا نتیجہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام کے ساتھ باقی بچنے والے اہلِ ایمان سے بعد والی نسلوں نے ان بزرگوں کی نیکی اور کرامتوں کے واقعات سنے، وقت گزرنے کے ساتھ جب جہالت کا غلبہ ہوا تو شیطان نے ان کے ہاتھوں آثار قدیمہ کے طور پر وہی بت نکلوا کر یا ان سے ان اکابر کے فرضی مجسّمے بنوا کر، جیسا کہ نصرانیوں نے مسیح اور مریم علیھما السلام کے فرضی مجسّمے بنا رکھے ہیں، دوبارہ ان کی عبادت شروع کروا دی۔ بہر حال یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان پانچوں بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور باقاعدہ ان کے آستانے موجود تھے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث میں گزرا ہے۔ عرب میں عبد وَدّ اور عبد یغوث وغیرہ نام بھی ملتے ہیں۔ 2۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہنےفرمایا : ’’واقدی کا بیان ہے کہ ’’وَدّ‘‘ایک آدمی کی شکل میں،’’سواع‘‘ عورت کی شکل میں، ’’یغوث‘‘ شیر کی صورت میں، ’’یعوق‘‘ گھوڑے کی شکل میں اور ’’نسر‘‘ ایک پرندے کی صورت میں تھا، مگر یہ شاذ ہے۔ مشہور یہی ہے کہ یہ سب انسانی شکل میں تھے اور ان کی عبادت کے آغاز کا جو سبب بیان ہوا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔‘‘ (فتح الباری) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی بات نوح علیہ السلام کے زمانے کے بتوں کے متعلق تو یقیناً درست ہے، مگر بعد میں جب فرضی بت بنائے گئے تو ممکن ہے کہ ان جانوروں کی شکل پر بنائے گئے ہوں، جیسا کہ مشرک قوموں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ (واللہ اعلم) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ مسلمہ کو شرک سے بچانے کے لیے ان دروازوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیا جہاں سے شرک داخل ہو سکتا ہے۔ قبر پرستی کے فتنے کی ابتدا قبروں پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے سے ہوتی ہے اور بت پرستی کی ابتدا تصویریں اور مجسّمے بنانے سے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں چیزوں سے منع فرمایا اور اونچی قبروں کو (دوسری قبروں کے) برابر کر دینے اور ہر تصویر کو مٹا دینے کا حکم دیا۔ ابو الہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ((أَلَا أَبْعَثُكَ عَلٰی مَا بَعَثَنِيْ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ )) [مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر : ۹۶۹ ] ’’کیا میں تمھیں اس کام پر مقرر کرکے نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا؟ وہ یہ تھا کہ کوئی مورتی نہ چھوڑو مگر اسے مٹا دو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے برابر کر دو۔‘‘